ماہرینِ فلکیات نے ایک ایسے سیارے کا پتہ چلایا ہے، جس کے بارے میں خیال ہے کہ وہ ہیروں سے بنا ہے اور ہمارے کہکشاں کے عقب میں ایک چھوٹے سے ستارے کے گرد چکر لگا رہا ہے۔ یہ نیا سیارہ پرانے سیاروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ کثیف ہے اور بڑی حد تک کاربن پر مشتمل ہے۔ اس کی کثافت کی وجہ سے سائنسدانوں کا خیال ہے کہ کاربن ضرور شفاف ہو گی، لہٰذا اس ’عجب دنیا‘ کا بیشتر حصہ مؤثر طور پر ہیرے پر مشتمل ہو گا۔ آسٹریلیا کے شہر میلبورن کی سوِنبرن یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے میتھیو بیلز کہتے ہیں: ’’اس سیارے کی حیرت انگیز کثافت اور انقلابی تاریخ، ان تمام باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کاربن سے بنا ہے، مثلاﹰ ایک بہت بڑا ہیرا ایک مدار میں ہر دو گھنٹے میں نیوٹران ستارے کے گرد کچھ اس طرح چکر کاٹتا ہے کہ یہ ہمارے سورج کے اندر سما جائے۔‘‘ زمین سے اس کا فاصلہ چار ہزار نوری سال ہے۔ خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ سیارہ ماضی میں کسی بہت بڑے ستارے کا حصہ رہا ہو گا، جس نے پَلسر ستارے کی وجہ سے اپنی بالائی سطح کھو دی ہو گی، جس کے گرد وہ چکر لگاتا تھا۔ پَلسر چھوٹے اور مردہ نیوٹران ستارے ہوتے ہیں، جن کا قطر تقریباﹰ بیس کلومیٹر ہوتا ہے اور وہ ریڈی ایشن بیمز خارج کرتے ہوئے فی سیکنڈ سینکڑوں مرتبہ لٹو کی طرح گھومتے ہیں۔
ان میں سے پَلسر ستارہ J1719-1438 ہے، جس سے نکلنے والی بیمز زمین سے رگڑ کھاتی ہیں، جنہیں آسٹریلیا، برطانیہ اور ہوائی میں دُور بینوں کے ذریعے دیکھا گیا ہے۔
بیلز اور ان کے ساتھیوں کی جانب سے جرنل سائنس کو دی گئی معلومات کے مطابق پیمائش سے پتہ چلا ہے کہ اپنے مدار کے گرد ہر دو گھنٹے دس منٹ میں چکر کاٹنے والے اس نئے سیارے کا حجم عطارد سے کچھ زیادہ ہے، لیکن اس کی کثافت بیس گنا زیادہ ہے۔
اس نئے سیارے میں کاربن کے علاوہ آکسیجن کی موجودگی بھی متوقع ہے، جو اس کی سطح پر زیادہ ہو سکتی ہے جبکہ کاربن والے حصے میں اس کی موجودگی کا امکان انتہائی کم ہو سکتا ہے۔ اس سیارے کی انتہائی کثافت سے پتہ چلتا ہے کہ ہائیڈروجن اور ہیلیئم کے ہلکے عناصر موجود نہیں ہیں۔