دنیا بھر میں چہرے کی تبدیلی کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ چہرے کی تبدیلی کروانے والے افراد اس کی مقبولیت میں اضافے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں جبکہ چھے برس قبل چہرے کی تبدیلی ایک خطرناک اور بے باکانہ کام سمجھا جاتا تھا۔
جمعرات کے روز، بوسٹن کے ایک ہسپتال کے ڈاکٹروں نے ایک چیمپانزی کے حملے کا شکار بننے والی کارلا نیش کی سرجری کے بعد کی ایک تصویر جاری کی۔ فیس ٹرانسپلانٹ کے بعد لوگ گلیوں میں آزادانہ گھوم پھر سکتے ہیں جبکہ ان کے آس پاس والوں کو فیس ٹرانسپلانٹ کروانے والے کے چہرے کی تبدیلی کا علم ہی نہیں ہوتا۔ دنیا بھر میں چہرے کی تبدیلی کے اٹھارہ آپریشن سر انجام دیئے جا چکے ہیں۔ چہرے کی تبدیلی کا پہلا آپریشن 2005 میں سرانجام دیا گیا تھا جو کہ ایک فرانسیسی عورت کا تھا جبکہ امریکہ میں فیس ٹرانسپلانٹ کا عمل 2008 میں سر انجام دیا گیا۔