ملک پاکستان اللہ کی نعمت اور بے شمار غریب مسلمانوں کی قربانیوں سے 1947میں وجود میں آیا، چونکہ نئی نسل نے ان قربانیوں کو دیکھا نہیں تو انہیں اس کا احساس بھی نہیں ہو گا، کہ وہ قربانیاں کیا تھیں، غریب مسلمانوں کی قربانیوں سے بننے والے ملک پر مخلص قائدین کی وفات کے بعد ہوس اقتدار اور مادہ پرست وڈیروں اور انگریز کے ذہنی و جسمانی غلاموں نے قبضہ جما لیا اور قوم سے نہ انہیں پہلے سروکار تھا اور ان اقتدار پر دوبارہ قابض ہونے کے بعد،انہی ذہنی و جسمانی غلاموں کی اگلی نسلوں نے اس غریب قوم کو تعلیم سے دور رکھا اور انہیں کبھی ان کے حقوق کا اندازہ ہی نہ ہونے دیا بلکہ انہیں روزی روٹی کی بیڑیوں میں ایسا جکڑا کہ وہ آج تک تنکوں کی طرح ان کی جلائی ہوئی آگ  میں جل رہے ہیں،ملک پاکستان میں کشمیر کی آزادی کے نام پر اور ایرانی انقلاب کے اثرات کو زائل کرنے کے لئے ایسے جتھے بنائے گئے جنہیں جان دینے تک کے لئے تیار کیا گیا اور پھر ان سے وقتی طور پر خاطر خواہ نتائج بھی حاصل کئے، مگر ان سلگتی ہوئی لکڑیوں کو بجھانے کا انتظام کئے بغیر انہیں مشرف دور حکومت میں جنگل میں ایک طرف پھینک دیا گیا جہاں سے ان سلگتی لکڑیوں نے جنگل کی شادابی اور جانداروں کو جلانا شروع کر دیا،کیا اس وقت مشرف امریکہ بہادر کی پکار پر لبیک نہیں کہتا تو ہم آج جو ستر ہزار جانوں کی قربانی دینے کے بعد بھی امن  کے لئے ترس رہے ہیں، تو کیا لبیک نہ کہنے پر ہم پر بمباری سے اتنی جانیں ضائع کرتے؟ کیا اب تک ہمارے ملک میں چلتے پھرتے غداران وطن ایسے ہی ہماری جانوں سے کھیلتے رہتے؟،اگر مشرف اس وقت بزدلی کا مظاہرہ نہیں کرتا اور امریکہ و اقوام عالم کو صاف جواب دیتا کہ کہ آپ گدھے سے گرے ہو تو، گدھے سے پوچھو کمہار پر نہ چڑھ دوڑو، اور ان کے مطالبات کو رد کر دیتا، تو ایک ایٹمی ملک ہونے کے ناطے دھمکی بھی دے دیتا ،کہ اگر ہم پر بمباری ہو گی اور ہمسایہ ممالک ہماری آواز کے ساتھ آواز نہیں اٹھائیں گے، جن میں ایران اور بھارت شامل ہیں تو ہم بمباری سے مرنے سے زیادہ سب کو ساتھ لے کر مرنا پسند کریں گے،اس کے جواب میں امریکہ بہادر اور اقوام عالم اقتصادی پابندیاں لگا دیتا۔ ملک میں غربت کی شرح بڑھ جاتی لوگوں میں خود کشیوں کے رجحان بڑھ جاتا،خیر وہ تو اب بھی ہے ،غربت میں اضافہ اور خود کشیوں کا رجحان تو اب بھی سر اٹھائے سامنے ہے۔

hawas-e-iqtadar
عالمی اقتصادی پابندیوں کے ہونے نہ ہونے سے کبھی بھی غریب کی زندگی پر اثر نہیں پڑا،کیونکہ یہ قرضے تو لئے جاتے ہیں سرمایہ دارانہ نظام کو تقویت دینے کے لئے، یا اقتدار کے مزے لوٹنے کے لئے ،تا کہ جتنا سرمایہ ہو گا اس سے اتنی ہی عیاشی اور اتنے ہی میگا پراجیکٹ لگیں گے اور میگا کرپشن کر کے اپنے خزانے بھرے جا سکیں گے۔
حکومت میں آنا ہو یا جانے کا ڈر ہو ہم دشمنوں سے بھی مدد ملنے کو قابل اعتراض نہیں سمجھتے ہیں ہم اپنے لوگوں کو مروانا پسند کر لیتے ہیں مگر اقتدار کی راہداریوں کو چھوڑ کر قوم کا نہیں سوچتے، کوئی بھی سیاسی پارٹی ہو یا وردی والی ، سب نے اس نشہ اقتدار میں بد مست ہاتھی کی طرح اپنی قوم کو روندا ہے۔خدارا اب بس کر دو اور کتنا خون بہائو گے ان غریبوں کا، خود تو جیمرز اور پروٹوکول میں حفاظتی حصاروں میں زندگی جی لیتے ہو اور غریب کے جان و مال سے آپ کو کیا ۔
جناب ایک امیر ترین غریب آدمی ایدھی بھی صرف کفن میں دفن ہوا ہے اور آپ کو بھی اللہ کفن تو کم از کم نصیب فرمائے۔ دعا ہی کر سکتا ہوں

By فخرنوید

قابلیت: ایم ایس سی ماس کمیونیکیشن بلاگز: پاک گلیکسی اردو بلاگhttp://urdu.pakgalaxy.com ماس کمیونیکیشن انگلش بلاگ http://mass.pakgalaxy.com ای میل:[email protected]

Leave a Reply

Your email address will not be published.