ممتاز قادری وہ شخصیت ہے جس نے تقریباً پانچ سال قبل 4 جنوری 2011 کو اسلام آباد میں اس وقت کے گورنرپنجاب سلمان تاثیر کی حفاظت کی ڈیوٹی انجام دیتے ہوئے فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا۔ اس میں وجہ قتل صرف توہین رسالت و توہین رسالت قانون ہے۔ آئیے یہاں سلمان تاثیر کے اس بیان کر بھی دہرا دیں جس کی وجہ سے ممتاز قادری کو قتل کرنے کی شہہ ملی۔ سلمان تاثیر نے گورنر پنجاب کی حیثیت سے سال 2010 میں متعدد انٹرویوز میں توہین رسالت کے قانون بارے اپنے بیانات جاری کئے لیکن 20 نومبر 2010 کو آسیہ بی بی کے ساتھ جو پریس کانفرنس کی اس کا یہ بیان زیادہ زہر قاتل ثابت ہوا۔
انہوں نے کہا کہ میں نے کیس کا مکمل جائزہ لیا ہے اور ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔ مجھے صوبے کے آئینی سربراہ کی حیثیت میں اپیل ملی ہے میں یہ خود صدر کے پاس لے کر جاؤں امید ہے کہ صدر اسے منظور کر لیں گے۔ گورنر نے کہا اس معاملہ میں مذہب کی کوئی بات نہیں اس کا تعلق انسانیت سے ہے، بے بس لوگوں کو ایسے کیسوں میں ملوث کر کے مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا وہ عدلیہ کے فیصلوں سے متعلق کچھ نہیں کہیں گے نہ پارلیمینٹ کی کاروائیوں میں مداخلت کرتے ہیں، آسیہ کی سزا برقرار ہے ، عدلیہ کے فیصلوں میں مداخلت نہیں کروں گا۔ اگر صدر مملکت نے آسیہ بی بی کی سزا معاف کر دی تو کوئی بھی پاکستانی اس پر احتجاج نہیں کر ے گا۔ یہ خاتون ہایت غریب ہے اور اس کے پاس قانونی دفاع کے لئے وسائل بھی نہیں”۔
مذہبی جماعتوں کی طرف سے اس اقدام اور بیان کے بعد سابقہ بیانات اور حالیہ بیانات کی وجہ اس قانون کو ختم کرنے کی سازش کی بو محسوس ہوئی تو کچھ مذہبی رہنماوں نے اس پر اپنی آواز بلند کی اور یہ قرار دیا کہ گورنر کی جانب سے توہین رسالت قانون کو کالا قانون کہا جانا توہین رسالت کے زمرے میں آتا ہے۔ جس کے بعد حالات و واقعات کی بنا پر ممتاز قادری نے بلاآخر 4 جنوری 2011 کی شام فائرنگ کر کے قتل کر دیا اور اپنے بیان میں کہا کہ
اس نے ناموس رسالت ایکٹ کو کالا قانون کہنے پر گورنر تاثیر کو قتل کیا ہے اور اسے اس پر کوئی افسوس نہیں”۔”
اس واقعہ کے بعد ممتاز قادری کو مختلف عدالتوں سے پھانسی کی سزا کے بعد صدر پاکستان کی طرف سے بھی کسی رعایت نہ ملنے کے بعد مورخہ 29 فروری 2016 کو پھانسی دے دی گئی۔ اب سوشل میڈیا پر تو اس خبر کا زور و شور روایتی ایشو کی طرح بھرپور جاری ہے۔ لیکن جسے مین سٹریم میڈیا کہا جاتا ہے۔ جس نے قتل کی واردات کو تو دنوں پر محیط ٹرانسمیشن میں شامل رکھا اور اس کے بعد پھانسی کی سزا سے لے کر صدر کی جانب سے رعایت نہ ملنے تک کو نمایاں رکھا۔اس دوران مختلف مذہبی تنظیموں نے ممتاز قادری کے ساتھ اظہاری یکجتی کرتے ہوئے جلسے جلوس اور دھرنے بے دئیے جن کی کسی میڈیا نے کوریج نہیں کی لیکن اس کی کوریج سوشل میڈیا کے زریعے انٹرنیٹ استعمال کرنے والے لوگوں تک ہوتی رہی۔ وہی اخبارات اور نجی ٹی وی جو چھوٹی سی چھوٹی خبر کو اپنے صفحات اور سکرینوں پر بار بار ایسے گھماتے ہیں کہ جیسے پورے ملک کا مسئلہ ہی یہی ہے۔ جب ممتاز قادری کو پھانسی دینے کے بعد پورے ملک میں اس کے خلاف احتجاج اور ردعمل آیا ہے تو میڈیا نے پیمرا کی جانب سے ایک دھمکی آمیز خط موصول ہونے پر اپنے تمام قواعد و ضوابط کو بدل کر اس نمایاں خبر کو بالکل سائیڈ لائن کر دیا ہے۔ کہاں ہیں وہ آزادی اظہار کے علمبردار اور میڈیا کی آزادی کے راگ الاپنے والے جنہوں نے کہا کہ ہم نے ملک میں سب کو اظہار رائے اور لوگوں تک رسائی دلوا دی ہے۔ یہ باتیں چینلز پر بیٹھ کر ہی بس کی جا سکتی ہیں یا کالم لکھ کر ہی صرف کی جاتی ہیں کہ ہم نے آزادی صحافت کے لئے جنگ لڑی ہے۔ لیکن حقیقت میں آپ لوگوں نے آزادی صحافت نہیں آزادی حصول مال کی جنگ لڑی ہے جس کی قیمت آج آپ وصول کر رہے ہیں۔ جب تک آپ جیسے صحافی اور دانشور اس ملک میں وافر مقدار میں میسر رہیں گے ہماری قوم یونہی جہالت کے اندھیروں میں ڈوبی رہے گی یونہی سلمان تاثیر قتل ہوتے رہیں گے یونہی ممتاز قادری پھانسی چڑھتے رہیں گے۔ اس وقت بھی سلمان تاثیر قتل نہیں ہوا تھا پاکستانی قوم قتل ہوئی تھی اور آج بھی ممتاز قادری پھانسی نہیں چڑھا پاکستانی قوم پھانسی چڑھی ہے۔ جس کے ذمہ دار اس قوم کے آواز بننے والے سگ ہیں جو کہتے ہیں ہم عوام میں سے ہیں اور ان کے لئے قربانیاں دے کر یہاں عوام کے حق کے لئے بولتے ہیں جناب واقعی آپ حق کے لئے بولتے ہیں اپنی جیب کے حق کے لئے۔ جس میں عوام کے لئے کچھ نہیں ہوتا۔ آج وقت کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ آپ کسی ایک فرد کی حمایت میں بولیں بلکہ تقاضا یہ ہے کہ آپ جو دیکھ رہے ہیں کم از کم اسے اپنے میڈیا پر دکھائیں۔ اگر کوئی احتجاج کر رہا ہے تو اسے بھی میڈیا پر آنے کا اتنا ہی حق ہے جتنا آسکر ایوارڈ میں جیتنے والے انکل لیونارڈو یا آنٹی شرمین عبید چنائے کو ہے جس نے ہمیشہ پاکستان کی مثبیت کو چھوڑ کر اس مکھی کا کردار ادا کیا ہے جو پورے خوبصورت جسم کو چھوڑ کر صرف زخم پر بیٹھتی ہے خواہ کتنا چھوٹا کیوں نہ ہو۔ اگر کسی کو دیکھنا ہے کہ کیسے مین سٹریم میڈیا نے آج اپنی صحافت کو طوائف کی طرح بستر حکومت پر لٹا لیا ہے تو جناب وہ سوشل میڈیا پر موجود مواد دیکھ لے ٹی وی چینلز پر کسی کے بیمار کتے کی خبر دیکھ لے تو مورخہ 5 جنوری 2011 کے اخبارات اور یکم جنوری 2016 کے اخبارات میں ایک ہی واقعہ کی خبر کی تمام کالمی سے سہہ کالمی خبریں دیکھ لیں جس کی جتنے کالم کم ہوں وہ اتنی ہی قیمتی طوائف صحافت کے علمبردار ہیں۔ نوٹ:۔ ممتاز قادری و سلمان تاثیر قتل بارے میری رائے۔