معاشرتی بے حسی جوں جوں معاشرہ مبینہ ترقی کر رہا ہے۔ اور اخلاقی انحطاط کی جانب بڑھ رہا ہے۔ آنے والے دنوں میں نہ جانے ہم پاکستان کے بڑے شہروں کی طرح چھوٹے شہروں میں بھی اخلاقی پستی اور کئی مذہبی و اخلاقی و معاشرتی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرتے نظر آرہے ہیں۔
اگر ہم آج اپنے معاشرے کے سدھار کے لئے آگے نہ بڑھے تو یہ آج جلنے والی چنگاری آنے والے دنوں میں آگ کا بگولہ بن کر ہمارے معاشرتی اقدار و روایات کو جلا کر بھسم کر دے گی۔ پھر کیا ہو گا اک پچھتاوا یا ہماری آنے والی نسلیں ہمیں اس کا ذمہ دار ٹھہرا کر لعن طعن کریں گی۔
ایک بڑا سماجی مسئلہ بیوہ اور مطلقہ عورتوں کا ہے، ان کا گزر بسر کیسے ہو، کس طرح سماج میں وہ باعزت زندگی گزاریں، میکے میں وہ کب تک رہیں گی؟ ان کو اور ان کے بال بچوں کو ایک بار سمجھا جاتا ہے. بہائی اگر کچھ مائل بکرم ہوں بہی تو بہابہی کی کڑوی کسیلی باتیں کب تک برداشت ہوں؟ اسلام ایک فطری دین ہے اور تمام مسائل کو بطریق احسن حل کرتا ہے. اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اس پیچیدہ سماجی مسئلے کا حل یہ ہے؛ 1… وراثت میں ان کا جو حق ہے، وہ ملنا چاہیے، تاکہ یہ صاحب حیثیت ہوں اور اپنی پراپرٹی کی مالک اور اس میں آزادی کے ساتھ تصرف کرنے والی ہوں. دوسری قوموں سے متاثر ہوکر آج ہم نے عورتوں کو وراثت سے محروم کردیا، جب کہ قرآن مجید میں ان کا حق وراثت تفصیل سے بیان کیا گیا ہے. سماج کی اس غلط روایت کو فورا ختم کرنے کی ضرورت ہے اور اسلامی احکام وراثت کی روشنی میں عورتوں کو پورا حق دینے کا التزام کرنا چاہیے. 2…تعدد ازواج… اسلام نے مرد کو ایک وقت میں چار تک بیویاں رکہنے کی اجازت دی ہے اور قرآن مجید میں صاف طور سے کہا گیا ہے؛ فانکحوا ما طاب لکم من النساء مثنی و ثلاث و رباع وإن خفتم ألا تعدلوا فواحدة….. اس میں چار تک شادی کی اجازت ہے، البتہ عدل کی شرط لازمی ہے، چنانچہ یہ تاکید ہے کہ اگر اندیشہ ہو کہ عدل نہ کرسکوگے تو ایک ہی شادی پر اکتفاء کرو. یہ تعدد زوجات کی اجازت سماجی مسئلے کا بہت معقول حل ہے، اس طرح بیوہ اور مطلقہ خواتین کیلئے باعزت زندگی گزارنے کا ایک بہت مناسب بندوبست ہوجائے گا. عہد نبوی اور عہد صحابہ میں اسلامی معاشرے میں اس کا چلن تھا، اس لیے اس طرح کے سماجی مسائل نہیں پیدا ہوتے تھے. بر صغیر میں ہندو سماج کے اثرات کی وجہ سے یک زوجگی کا رواج ہے، جو بہت سارے مسائل کی جڑ ہے. ضرورت اس بات کی ہے کہ وراثت کے احکام پر عمل کیا جائے اور تعدد ازواج کا چلن عام کیا جائے تاکہ بیوہ اور مطلقہ خواتین عزت و تکریم کے ساتھ اپنی زندگی گزار سکیں اور ایک سنگین سماجی مسئلے کا حل نکل سکے.
ہمیں مال و دولت کی بہتات اور ہوس کی وجہ سے اخلاقی طور پر ایسے لوگوں کو یکسر نظر انداز کرنے سے باز آنا ہوگا۔ اور اپنے ارد گرد بسنے والے لوگوں کے دکھ درد کو سمجھنا چاہیے۔ اور ان کی اخلاقی ، و مالی مدد کرنا چاہیے۔
ہمارے ارد گرد ایسی کئی خواتین ہوں گی جن کی زندگی مطلقہ یا بیوہ کے طور پر گزار رہی ہیں ۔ اور وہ اپنی عصمت و غیرت پر پہرہ دے رہی ہیں۔ مگر اس کے ساتھ وہ اپنی پاکدامنی کو قائم رکھنے کے لئے معاشرے میں موجود اپنے ہمسایوں اور محلے داروں کی ذمہ داری بھی ہیں کہ وہ ان کی مالی و اخلاقی مدد کریں۔
گذشتہ دنوں ایک ایسی بیوہ کے حالات بھی نظر سے گزرے جس کے پاس کچھ کھانے پینے کا نہ تھا ۔ اور ان کے قریبی صاحب ثروت اپنے ہمسائیوں اور محلے داروں کو چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں ایسی بیوگان کی مدد کرتے بھی دیکھے جو نہ تو اپنی عصمت و غیرت کی محافظ تھیں۔ اور نہ ہی وہ صاحب ثروت لوگوں کی مدد میں صرف فی سبیل اللہ کا عنصر موجود تھا۔ ان میں سے کچھ کے گھروں میں رمضان کے آغاز سے ہی اتنا راشن جمع ہو جاتا تھا کہ وہ دوکانوں پر اسے فروخت کرنے کے بعد بھی لوگوں سے مدد کرنے کو رابطہ کر رہی ہوتی ہیں۔ اور اپنی پاکدامنی کو داغدار کر رہی ہوتی ہیں۔ نہ جانے ان میں سے کتنی مجبوری سے اس راستے پر پہنچی یا ان کا مطمع نظر کچھ اور تھا اس پر بحث بے کار ہے۔
ہمیں اپنے ارد گرد موجود ایسی خواتین کو اپنی عزت و تکریم اور پاکدامنی کے تحفظ میں ایسے مدد کرنی چاہیے۔ کہ آپ ان سے براہ راست رابطہ کرنے کی بجائے اپنی گھریلو خواتین کے ذمہ اس کام کر سرانجام دینے اور شناخت بھی چھپائے رکھنے پر پابند کریں۔
معاشرے میں موجود سبھی مرد بھی برے نہیں مگر چند مردوں کی وجہ سے اشرف المخلوقات کے افضل ترین مخلوق کی جنسی بے راہ روی اور مال حرام کی بہتات انہیں ایسی خواتین اپنے مال کی زعم پر شکار کرنے نکل پڑتے ہیں۔ جو کہ اپنے ساتھ ساتھ ان کی مجبوری و تنگدستی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کا استحصال کرتے ہیں۔ خدارا آپ کسی بھی مذہب یا معاشرے سے تعلق رکھتے ہوں۔ خواتین کی عزت کیجئیے اور انہیں با عزت و غیرت مند زندگی گزارنے میں مدد دیں۔ اللہ آپ کے لئے بھی آسانیاں پیدا کرے اور آپ کی عزت و تکریم کو محفوظ کرے۔