گوجرانوالہ جو کہ پاکستان کا ساتواں بڑا شہر ہے۔ جہاں مختلف صنعتوں کا جال بچھا ہوا ہے یہ شہر ملک و بیرون ملک بسنے والی عوام کی ضروریات زندگی کو پورا کرنے میں ایک اہم مقام رکھتا ہے۔ ایک وقت تھا کہ یہ ایشیا کہ گندے ترین شہر میں صف اول پر موجود تھا۔ مگر پچھلی ایک دہائی میں اس شہر نے خاطر خواہ ترقی کی ہے۔مشرف کے مارشل لا کے دور میں جن پورے ملک میں نیا بلدیاتی نظام نافذ ہوا تو اس شہر کی کچھ سنی گئی اور اختیارات کے نچی سطح تک منتقلی سے کونسلرز اور ناظمین کا وجود ظہور پذیر ہوا تو لوگوں کی گلیاں محلے صاف ہونا شروع ہو گئے۔ سیوریج کے مسائل اور گلیاں اور بازار پختہ ہونے سے لوگوں کی زند گیوں میں کچھ اچھی تبدیلی آئی۔ اس دوران کچھ ناظمین جو کہ پہلے محلے کے لوگوں سے وقتاً فوقتاً ادھار لے کر گزارہ کرتے تھے۔ انہیں بھی جاگ لگ گئی اور وہ بھی خوشحال ہو گئے۔
لیکن ان بنیادی سطح پر ہونے والے کاموں کے باوجود شہر گوجرانوالہ میں گندگی ختم ہونے کو نہ تھی جسکی وجہ خستہ حال اہم شاہرات تھیں۔ جن میں سیالکوٹ روڈ ، کچا ایمن آباد روڈ ، کشمیر روڈ ۔ جناح روڈ ، کھیالی روڈ ، نوشہرہ روڈ اور گوجرانوالہ شہر کی درمیان سے نکلنے والا گوندلانوالہ روڈ شامل تھے ان کی کبھی نہ سنی گئی۔
آخر وقت گزرتا گیا اور ہمارے کچھ لیڈران کا اس طرف خیال گیا انہوں نے ان تمام شاہرات کی تعمیر کو ممکن بنوایا۔ جس سے اب گوجرانوالہ کی شاہرات بہت خوبصورت بن گئی ہیں۔ اور شہر بھی صاف صاف لگنے لگا ہے۔ جناب زوالفقار احمد چیمہ صاحب جو گوجرانوالہ میں آر پی او کی حیثیت سے فرائض سر انجام دیتے رہے ہیں جہاں انہوں نے شہر میں موجود جرائم کے گند کو کم کیا وہیں انہوں نے اپنی کوششوں سے جی ٹی روڈ کے اردو گرد گرین بیلٹ بنوانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔
گوجرانوالہ شہر کی اندر موجود ریلے لائن کی وجہ سے ریلوے پھاٹک پر ہمیشہ ٹریفک کا مسئلہ رہا تھا جس کے حل کے لئے شہر کے اندر تین انڈر پاس تعمیر کئے گئے۔ جن میں پہلا انڈر پاس ڈی سی روڈ پھاٹک کے ساتھ بنایا گیا دوسرا انڈر پاس نگار پھاٹک پر تعمیر ہوا جبکہ ایک انڈر پاس حیدری روڈ کی طرف جی ٹی روڈ سے تعمیر کیا گیا۔
ایک بڑا شہر ہونے کی وجہ سے گوجرانوالہ میں ٹریفک کے مسائل روز بروز بڑھنے لگے تو اس کے لئے وفاقی حکومت نے کھیالی بائپاس کے قریب ایک اوور ہیڈ برج بنانے کا فیصلہ کیا اور اس وقت کے وزیر اعظم جناب یوسف رضا گیلانی نے اس کا سنگ بنیاد رکھا۔ اب تقریباً 3 سال ہونے کو قریب ہیں۔ لیکن یہ اوور ہیڈ برج مکمل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا جس کی وجہ وفاق کی طرف سے فنڈز کا فراہم نا کیا جانا ہے۔ زیر تعمیر اوور ہیڈ برج کی وجہ سے اب بائیپاس پر مزید ٹریفک کا رش رہنے لگا ہے اور لوگ کوفت کا شکار ہو گئے ہیں۔
اس ناکام منصوبے کے باعث اندرون شہر سے گزرنے والی ٹریفک میں اضافہ ہوا تو ہمارے کچھ منصوبہ سازوں نے پنجاب حکومت کی مدد سے شہر کے اندر بھی ایک اوور ہیڈ برج بنانے کا فیصلہ کیا اور مختلف قسم کی سازشوں کے باوجود صوبائی حکومت کی طرف سے فنڈز فراہم کرنے کے بعد اس کی تعمیر کا آغاز ہو گیا اور اس پر دن رات کام ہو رہا ہے جو ان شا اللہ مارچ 2013 تک مکمل ہو جائے گا۔
گوجرانوالہ اندرون شہر زیر تعمیر اوور ہیڈ برج
ہمارے ایک دوست بلاگر جب اردو بلاگرز کانفرنس میں ہم سے ملے تو انہوں نے باتوں کے دوران کہا یار لاہور میں جتنے کام ہور ہے ہیں اس سے اس بات کی اشد ضرورت اور مطالبہ زور پکڑ رہا ہے کہ ہر شہر میں ایک وزیر اعلیٰ ہونا چاہیے۔
لیکن میں انہیں صرف یہ دکھانا چاہ رہا تھا کہ دوست جی یہاں کوئی وزیر اعلیٰ نہیں۔ بس یہاں کے ارکان اسمبلی کے دل میں کچھ خوف خدا آیا ہے۔ جس سے گوجرانوالہ شہر نے ترقی کی ہے اور انہوں نے بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے ہیں۔ جس کے بارے بعد میں ضرور لکھوں گا۔