اردو بلاگنگ کی تاریخ میں پہلی دفعہ منعقد ہونے والی اردو بلاگر کانفرنس کا ہونا ایک نہات ہی خوشگوار ہوا کا جھونکا ہے اردو بلاگران کے لئے۔ اس میں ملک بھر سے شرکا آئے۔ جن کے جزبے کو جتنا سلام کیا جائے اتنا ہی کم ہے۔ اس کے علاوہ اردو بلاگر انتظامیہ نے بھی اسے آرگنائز کروانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی تھی۔ لیکن کمی بیشی ہر جگہ نکل آتی ہے۔ اگر کہیں اچھا کانا بھی پکا ہو تو غلطی نکالنے کو بندہ کہہ دیتا ہے نمک کم ہے۔
اس کانفرنس میں اردو بلاگنگ کمیونٹی کے صرف 50 فی صد ہی لوگ شریک ہو سکے۔ جو نہیں آسکے ان لوگوں کو اردو بلاگران نے بہت مس کیا۔ بقول حسن معراج جو کوئٹہ سے شریک ہوئے تھے۔ کہ یہاں جتنے لوگ حاضر ہیں۔ وہ رضیہ ہیں اور جو نہیں آئے۔ وہ سارے غنڈے ہیں۔
اب تعریفوں کے کافی پل باندھ لئے ہیں۔ اب شکوؤں کے جھنڈے بھی گاڑنے چاہیں۔
اردو زبان کو انٹرنیٹ پر جتنی ترویج ملی میری ناقص رائے کے مطابق اس کے پیچھے اردو ویب ڈاٹ آرگ کی محنت کو فراموش کرنا اس بڑے فورم پر انتہائی افسوسناک ہے۔ یہ وہ فورم تھا جس نے اردو بلاگران کو انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا لیکن اس کانفرنس میں ہم اپنے محسنوں کو بھول گئے۔
اس کانفرنس میں ہم ان لوگوں کو بھول گئے جنہوں نے اردو زبان کی ترقی کے لئے یونیکوڈ فونٹ بنائے اور فی سبیل اللہ فراہم بھی کئے۔ ان لوگوں کی شب و روز کی محنت سے بنے ہوئے فونٹ تو اردو بلاگران استعمال کر رہے ہیں۔ لیکن کبھی ان محسنین کا شکریہ ادا نہیں کیا گیا۔
ملک بھر سے آئے ہوئے تمام شرکا نے نہایت ہی نفاست اور نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا جس سے تمام لوگوں نے ایک دوسرے کے دل جیت لئے۔ لیکن کچھ مہمان بلاگران ہمارے ایک نہایت ہی محترم بلاگر جنہوں نے اردو کی ترویج میں آسانی کے لئےایک انسٹال بھی بنایا ہے۔ سے کچھ خفا نظر آئے۔ جن میں سے ایک بھی شامل تھا۔ کہ ان کا رویہ بسا اوقات ایسا ہو جاتا تھا کہ دوسرے بندے کے دل کو ٹھیس پہنچتی تھی۔ جس بارے انہوں نے رات کو واضح کیا کہ ہمارے علاقے کے لوگوں کا لہجہ ہی ایسا ہے کہ پیار بھی کریں تو ایسے لگتا ہے دندی وڈن لگا اے۔ خیر جو بھی علاقہ ہو پیار جیسا ہی لہجہ ہونا چاہیے۔
جیسا کہ فیس بک پر پہلے بھی سٹیٹس لکھ چکا ہوں کہ اس کانفرنس میں بھی ریوڑیاں ہی بانٹی گئی ہیں ۔ لیکن بہر حال کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر تھا۔