پاکستان جو کہ دنیا کے ایسے خطے میں وجود میں آیا جہاں معدنیاتی خزانوں کے حصول کے لئے صدیوں سے ہی مختلف حملہ آور جارحیت کرتے رہے۔ اور ان جارحانہ کاروائیوں کا اختتام اس اکیسویں صدی میں بھی نہیں ہو سکا ہے۔گو کہ یہاں مختلف نام نہاد آزاد ریاستوں کا قیام موجود ہے۔ لیکن پھر بھی یہاں صدیوں پہلے جیسے حالات موجود ہیں۔
پاکستان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں پر صرف دو فیصد عوام ٹیکس دیتے ہیں۔ جو کہ حقائق کے سراسر منافی ہے۔نا جانے یہ نجی ٹی وی چینل اور چند پرنٹ میڈیا کے ادارے یہ اعداد و شمار کہاں سے حاصل کر رہے ہیں۔ کہ پاکستان میں صر ف دو فی صد عوام ٹیکس دیتی ہے۔
پاکستان میں تو بچے کی پیدائش سے ہی ٹیکس شروع ہو جاتا ہے۔جو اس کی پیدائش کے وقت اس کے ادویات دی جاتی ہیں۔ وہ اس بچے کی قسمت میں لکھی گئی روزی روٹی کے حصے میں سے ہی اس دوائی پر عائد کردہ ٹیکس ادا ہوتا ہے۔ پھر بچہ جوں جوں بڑا ہوتا ہے۔ اس کی کتابیں اس کی کاپیاں اس کے علاوہ دوسری ضروریات زندگی کی اشیا پر بھی خاصا بھاری ٹیکس عائد ہوتا ہے۔ جو کہ اسی بچے کی قسمت کے رزق سے ہی ادا ہوتا ہے۔ اس کے بعد آپ دیکھ لیں کوئی چھوٹے سے چھوٹا مکان بنانا ہو۔ اس کے لئے اینٹیں ، سیمنٹ ، سریا ہر چیز پر ٹیکس آخر کار اینڈ یوزر یعنی صارف کو ہی دینا پڑتا ہے۔موبائل یوزرز جو کہ تقریبا کروڑوں کی تعداد میں موجود ہیں۔ وہ بھی ٹیکس کی مد میں اچھی خاصی اپنی چمڑی اتروا رہے ہیں۔
لوگ بات کرتے ہیں۔ نہیں جی یہ دو فی صد تو صرف انکم ٹیکس والوں کو کہا جاتا ہے۔ اوہ اللہ کے بندو انکم ٹیکس کے قابل جتنے لوگ رہ جائیں گے۔ وہی انکم ٹیکس دیں گے نا۔
اسی طرح سیوریج ، یوٹیلیٹی بلز اور دوسری اشیائے ضروریہ پر عوام اپنی اوقات سے زیادہ ٹیکس جمع کرواتی ہے۔ لیکن اس کا استعمال انتہائی بے دردی سے کیا جاتا ہے۔
یہاں میں آپ کو آج ایک ایسے ہی اداروں میں سے ایک ادارے کی حقیقت دکھاتا ہوں۔جس میں ایک انتہائی منظم طریقہ اور ایمانداری کے ساتھ امور کرپشن سر انجام دئیے جاتے ہیں۔ تو جناب آج جس ادارے کا انتخاب کیا گیا ہے یہ ہے ہمارا صوبائی پبلک ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ۔ پہلے آپ لوگوں کو اس کے فنگشن کے بارے میں بتاتا چلوں۔ اس میں ضلعی سطح پر ایک ایکسین صاحب ہوتے ہیں جو کہ اس کے نگران ہوتے ہیں۔ اس کے بعد ایک ایس ڈی او ہوتا ہے۔ غالبا ہر ایکسین یا ضلع میں تقریبا 4 عدد ایس ڈی او ہوتے ہیں۔ ان کے نیچے اور ہر ایس ڈی او کے ماتحت تقریباً تین سے چار ہی اوور سئیر کام کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس ضلعی انتظامی مشینری میں اے ایس ڈی سی یعنی کے کلرک ہوتا ہے۔ اور ایک عدد کمپیوٹر آپریٹر ہوتا ہے۔
اس ادارے میں ایک خاص اہمیت اس علاقہ کے ایم این ایز اور ایم پی ایز کے علاوہ ٹھیکیدار صاحبان کو بھی حاصل ہوتی ہے۔ جن کی بدولت یہ اداری دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرتا ہے۔
تو جناب ہم اس ادارے کی ورکنگ پر نظر دوڑاتے ہیں۔سب سے پہلے ایم این ایز اور ایم پی ایز حضرات کو وفاقی و صوبائی حکومتوں کی طرف سے ترقیاتی فنڈز دئیے جاتے ہیں۔ جس کے بعد وہ یہی فنڈز لے کر اپنے متعقلہ ضلعی پبلک ہیلتھ کے دفاتر کو اطلاع کرتے ہیں اس فنڈ کے ترقیاتی منصوبہ جات بنائے جائیں۔ جس کے بعد اوور سئیر صاحبان ایس ڈی او کی نگرانی میں تخمینہ لاگت کے حساب سے مختلف قسم کے ترقیاتی منصوبے بنا کر اپنے ایس ڈی او کی وساطت سے ایکسین صاحبان کو بھجتے ہیں۔ وہاں سے یہ ڈی سی او یا کمشنر صاحب کی منظوری کے لئے چلے جاتے ہیں۔ جہاں یہ منظوری کے بعد کام شروع ہوتا ہے۔
اس کے لئے سب سے پہلے ٹینڈر طلب کئے جاتے ہیں۔ ٹینڈر طلبی کے بعد مختلف ٹھیکیدار صاحبان کے ٹینڈرز منظور کئے جاتے ہیں۔ ٹینڈر کی منظوری کے ساتھ ہی بازار کرپشن کھل جاتا ہے۔ ٹینڈر جس ٹھیکیدار کو دیا جاتا ہے۔ اس ٹھیکیدار نے تخمینہ لاگت کا تقریباً 10 فی صد اس ایم این اے یا ایم پی اے کو ادا کرنا ہے جس نے وہ فنڈ دیا ہے۔ اس کے بعد 5 سے 7 فی صد ایکسین صاحب کو تخمینہ لاگت کا ادا کیا جاتا ہے۔ ان مراحل کے بعد پراجیکٹ پر کام شروع ہو جاتا ہے۔ جوں جوں پراجیکٹ پر کام ہوتا جاتا ہے۔ ساتھ ساتھ مکمل ہوئے کام کا بل بنتا جاتا ہے۔ اس بننے والے بل پر 3 فی صد ایس ڈی او صاحب اور 3 فی صد ہی اوو سئیر صاحب کو دیا جاتا ہے۔ پھر یہی بل جب کلرک صاحب یعنی اے ایس ڈی سی کے پاس پہنچتا ہے۔ تو اس کو بھی ہر بل پر 1 فی صد ادا کیا جاتا ہے۔ یوں یہ سارا عمل بغیر کسی تگ و دو اور نشکل ایمانداری کے ساتھ مکمل ہو جاتا ہے۔
یوں آپ دیکھیں ترقیاتی فنڈ کا کیا حال بنا ہے اس کے اعداد و شمار بناتے ہیں۔
ممبر اسمبلی: 10 فی صد
ایکسین: 10 فی صد
ایس ڈی او: 3 فی صد
اوور سئیر: 3 فی صد
اے ایس ڈی سی: 1 فی صد
یعنی کے کل 37 فی صد تو اسی ترقیاتی فنڈ کا استعمال کرپشن کی نظر ہو گیا ہے۔ اب ٹھیکیدار نے بھی کچھ بچانا ہے۔ تقریبا اگر اس کا حصہ 13 فی صد نکالا جائے تو پھر 50 فی صد مالیت سے ایسے ہی ترقیاتی منصوبے ہوں گے ۔ جو ایک سال کی قلیل مدت سے پہلے ہی برباد ہو جاتے ہیں۔
جناب کرپشن کی یہ کہانی یہاں ہی ختم نہیں ہو جاتی ہے۔ ابھی یہ کرپشن کا بازار کئی اور گھروں میں دیپ جلائے گی۔ اب اگر کسی علاقے میں کوئی سیانا بندہ ہے تو وہ اس ترقیاتی منصوبے کے خلاف درخواست دے گا اینٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ کو تو جناب پھر اینٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ والے اس درخواست کو ڈائری نمبر لگانے سے پہلے اس ملزم شخص سے رابطہ کرتا ہے اور اس سے اپنا حصہ وصول کر کے ڈائری نمبر کو کچھ دنوں کے لئے روک لے گا یوں وہ ملزم بندہ درخواست دہندہ کے ساتھ ساز باز کر کے اس درخواست کو واپس کروا دیتا ہے۔ اس میں کچھ صحافی بھی اپنا ہاتھ ضرور ڈالتے ہیں صرف اس حد تک کہ ایس ڈی او صاحبان اور ایکسین صاحبان سے اپنی منتھلی لے کر خاموش رہتے ہیں۔
تو جناب کرپشن کہانی یہاں ابھی اختتام پذیر نہیں ہوئی ہے۔ بلکہ ابھی اسی کرپشن نے کئی اور گھروں کے دیپ جلانے ہیں۔ اگر اس علاقے میں کوئی سیانا یا صاب بندہ اس ترقیاتی منصوبہ سے اپنا حصہ وصول کرنے کا خواہاں ہو تو اس کے لئے اسے صرف ایک عدد سادہ کاغذ پر درخواست لکھ کر متعلقہ اینٹی کرپشن ادارے کے دفتر میں جمع کروانی ہے۔ جہاں پر درخواست وصول کر لی جائے گی۔ لیکن اس کو ڈائری نمبر نہیں لگایا جائے گا۔ یعنی اسے سرکاری کاغذوں میں وصول نہیں کیا جائے گا۔ بلکہ وہ پہلے سرکاری افسر اس ملزم شخص سے رابطہ کرے گا اور اس درخواست کے خدوخال سے آگاہ کرے گا۔ جس کے ساز باز کر کے اس درخواست کا ڈائری نمبر کچھ دنوں کے لئے روک لیا جائے گا۔ اور ملزم شخص درخواست دہندہ کو راضی کرنے کے بعد اس درخواست کو واپس کروا دے گا۔ یوں یہ کرپشن کی دکان گرم ہو کر اور دیپ جلا جائے گی۔
اس کے بعد کچھ زرد صحافت کے امین بھی اس پبلک ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ سے ماہانہ 500 روپے سے لے کر 5000 روپے تک فی افسر منتھلی وصول کرتے ہیں۔ جس کا نام سلام کہا جاتا ہے۔
اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ اس منظم کرپشن سے ہمارے پیارے ملک کو نجات دلوائے۔ اور پاکستان کی عوام کو شعور عطا فرمائے کہ وہ اس منظم کرپشن کے خلاف اٹھ کھڑی ہو۔