ہماری سیاست اور حکمرانی کے ایوانوں کے ساتھ ساتھ حساس اداروں جن کو اسٹیبلشمنٹ کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ ہر دور میں سازشی عناصر کے ساتھ ہلچل مچانے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ ملک کے حالات کچھ بھی ہوں لین یہ سازشی عناصر بس اپنے اونٹ کی کروٹ بدلنے کی تاک میں ہی رہتے ہیں۔ اورعام عوام اس سازش کو سمجھنے میں تب کامیاب ہو پاتے ہیں۔ جب سازش مکمل طور پر کام کر چکی ہوتی ہے۔ یا پھر سازشی عناصر بے نقاب ہو چکے ہوتے ہیں۔
آپ لوگوں کا زہن اس وقت جناب حسین حقانی کی طرف جا رہی ہو گی کہ شاید میں ان کے بارے بات کر رہا ہوں۔ حضوروہ جس سازش میں مبینہ طور پر ملوث پائے گئے ہیں۔ اس کا تو تقریباً قصہ ختم ہونے والا ہے۔ کیونکہ وہ قربانی کا بکرا بن چکے ہیں۔ بس فرق اتنا ہے ان کی قربانی ۔۔۔۔۔۔عید قربان کے بعد ہوئی ہے۔ بہت سے تجزیہ نگاروں کو تو جناب حسین حقانی بطور سفارت کار اور اوپر سے امریکہ میں سفارت کاری کے لئے بالکل بھی پسند نہیں آرہے تھے۔ان کے بارے میں تاثر پایا جاتا تھا ک موصوف پاکستان کی خارجہ و اندرونی پالسییوں کے ساتھ مفاہمت نہیں رکھتے تھے۔ لیکن ان کی بیگم حضور فرح ناز اصفہانی صدر مملکت کی میڈیا ایڈوائزر بھی ہیں۔ اور اس کے ساتھ حسین حقانی صاحب دل جیتنے کے ماہر بھی جانے جاتے ہیں۔ بقول سلیم صافی جو کہ ایک نامو صحافی ہیں اور آج کل جنگ گروپ کے ساتھ منسلک ہیں۔ نے اپنے کالم میں لکھا ۔
“”ان کے زہین ، قابل، تیز طرار اور ابوالکلام ہونے میں کلام نہیں تو اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ سیاست اور سفارت میں حسین حقانی کا کردار ہمیشہ متنازع رہا ۔ میان نواز شریف کے ساتھ تھے تو بے نظیر بھٹو کے خلاف ان کے اقدامات کو حدود سے باہر گردانا جاتا تھا اور پھر بے نظیر بھٹو کے ساتھ چلے گئے تو میاں نواز شریف کے خلاف آخری حدوں تک چلے گئے۔ پرویز مشرف کے دور میں امریکہ گئے تو بہت جلد امریکی حلقوں میں قربتیں بڑھائیں۔ بلکہ وہاں اچھے بھلے لابست بن گئے۔ یہاں پرویز مشرف کی مخالفت میں اس حد تک گئے کہ فوج اور آئی ایس آئی پر ایسی ناقدانہ کتاب لکھ ڈالی جسے امریکی آج تک ریفرنس کے طور پر استعمال کرتے ہیں””
تو جناب ایسے شخص کے بارے مزید ٹائپ کرنے سے میری انگلیاں انکاری ہیں۔ ویسے بھی موصوف مستعفی ہو چکے ہیں۔
ایسے ہی سازشی کرداروں میں سے ایک کردار معروف ٹی وی اینکر اور وکیل نعیم بخاری بھی تھے جو اسٹیبلشمنٹ کے آل کار بنے اور سابق ڈکٹیٹر و صدر جنرل پرویز مشرف کے کھیل میں رنگ بھرنے کے لئے چیف جسٹس آف پاکستان کے نام ایک کھلا خط لکھا کہ آپ پر ایسے کرپش کے الزامات ہیں۔ جس کا سہارا لیتے ہوئے اس وقت صدر نے چیف جسٹس آف پاکستان کو معزول قرار دیا۔ باقی کی کہانی سے آپ لوگ واقف ہی ہیں۔
کل مورخہ 22 نومبر 2011 کو بھی ایک ایسا ہی اور کردار سامنے آیا ہے جس نے اسٹیبلشمنٹ کے کھیل میں مزید رنگ بھرنے کے لئے پرُ پُرزے نکال لئے ہیں۔ یہ بھی سابق صدر پرویز مشرف کے دور کے کھلاڑیوں میں سے ایک کھلاڑی ہیں۔ یہ موصوف 2008 کے الیکشن سے پہلے بنائی گئی نگران حکومت میں وزیر رہے انہوں نے اس وقت بھی کچھ غیر مقبول قسم کے فیصلے کئے۔ تو جناب یہ ہیں۔ ایک این جی او کے روح رواں جو دوسروں کے پیسوں پر اپنی بلے بلے کرتے ہیں۔ انصار برنی ۔
پہلے ان کے اس بیان پر غور کریں۔ جو انہوں نے 22 نومبر 2011 کو دیا۔ مختلف ٹی وی چینلز اور اخبارات نے اس کو کوریج دی ہے۔
موصوف نے بھی اعلی عدلیہ کو کرپشن ، دہشتگردی اور انسانی حقوق کی پامالی کا نوٹس لینے کا کہا ہے۔ اور ساتھ ہی یہ کہہ دیا ہے کہ اگر سپریم کورٹ نوٹس نہیں لے گی تو وہ فوج کو دعوت دیں گے کہ وہ آئیں اور اس کا نوٹس لیں۔
موصوف کو اگر کرپشن نظر آرہی ہے تو وہ خود اس کرپشن کے خلاف سپریم کورٹ میں کیس داخل کیوں نہیں کرتے؟
دہشت گردی کا موصوف نے ذکر کیا ہے۔ اس میں بھی وہ اپنا کیس بنائیں کہ ڈرون حملوں کی دہشت گردی ، سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز کی دہشت گردی ، تحریک طالبان پاکستان کی دہشت گردی وغیرہ کے خلاف کیس لے کر عدالت کیوں نہیں جاتے؟
انسانی حقوق کی پامالی کس چیز کو سمجھ رے ہیں؟ کبھی ان موصوف نے لاپتہ ہونے والے لوگوں کے بارے میں کوئی بیان دیا ہو؟