ٹوئٹر کی مقبولیت اور رسائی اور موبائل فون سے اس کے استعمال کی سہولت نے اسے انتہاپسند اور قدامت پسند گروپوں میں مقبول بنا دیا ہے اور اب طالبان نے بھی ٹوئٹر کا استعمال شروع کر دیا گیا ہے اور ان کی جانب سے اس نیٹ ورک پر کچھ پیغامات شائع کیےگئے ہیں۔
طالبان کا اپنے پیغام کو پھیلانے کے لیے ویب کا استعمال کوئی نئی بات نہیں کیونکہ یوٹیوب اور فیس بک جیسے سوشل نیٹ ورکس کی مقبولت اور وسیع رسائی کی وجہ سے ان کے پیغامات ایک بڑے طبقے تک پہنچ جاتے ہیں۔
سوشل نیٹ ورکس عموماً تشدد اور نفرت کو پرچار کرنے والے صفحات اور گروپس کے خلاف کارروائی تو کرتے ہیں لیکن پھر بھی ایسے افراد اور صفحات کچھ عرصے کے لیے ان سائٹس پر ٹک ہی جاتے ہیں۔
بی بی سی عربی کے مدیر محمد یحیٰی کے مطابق ’مثال کے طور پر ان کے لیے فیس بک پر ایسے لوگ صفحات بناتے ہیں جو انتہاپسند خیالات کے مالک ہوتے ہیں لیکن ان صفحات کو پسند کرنے والوں کی تعداد چند سو سے زیادہ نہیں ہوتی۔‘
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ عموماً اگر مداحوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگے تو لوگ اس کی شکایت کر دیتے ہیں اور یوں وہ صفحہ بند کر دیا جاتا ہے۔
مزاحمت کاروں اور انتہا پسند گروپوں کے ویب پیغامات پر نظر رکھنے والے بلاگ ’جہادیکا‘ کے بانی اور شریک مدیر ولیم مکانٹس کا کہنا ہے کہ ایسے گروپس اب فیس بک یا ٹوئٹر جیسے نیٹ ورکس پر زیادہ نہیں جاتے کیونکہ وہاں ان کے اکاوئنٹس بند کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔
تاہم ان کے مطابق یہ گروپس اب بھی خیالات کے تبادلے کے لیے استعمال کیے جانے والے ویب فورمز پر اپنے نظریات کی تشہیر کر رہے ہیں اور یہ سلسلہ 2005 سے جاری ہے۔
مغربی حکومتوں کی نظر میں دہشتگرد سمجھے جانے والے گروپس اور سیاسی جماعتوں جیسے کہ حزب اللہ اور حماس نے بھی ویب پر اپنی جگہ بنائی ہے۔
لیکن انٹرنیٹ پر قدامت اور انتہا پسند پیغام ہر جانب سے آتے ہیں۔ چاہے وہ سپر میسٹس ہوں یا کلوکلس کلان، ہر قسم کے مسلم اور صہیونی مخالف گروپ ویب پر اپنے خیالات کے پرچار میں کوئی مشکل محسوس نہیں کرتے اور ایک جائزے کے مطابق انٹرنیٹ پر ایسے گروپس کی تعداد میں ایک برس کے دوران بیس فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
ماضی میں کولمبین گوریلا گروپ فارک جیسی تنظیموں نے بھی اپنی باقاعدہ ویب سائٹس بنا رکھی تھیں۔ یہ ویب سائٹس تو اب بند ہو چکی ہیں لیکن ان تنظیموں نے اپنے پیغام کی ترسیل کے لیے ویب نیوز ایجنسی این کول کی شکل میں اس کا متبادل تلاش کر لیا ہے۔.
ٹوئٹر پر بھی آپ کو فارک جیسے گروپس ملتے ہیں لیکن یہاں یہ تنظیم کی شکل میں نہیں بلکہ انفرادی اکاؤنٹس کی صورت میں موجود ہیں۔
کیا یہ ایک چلن ہے؟ یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا لیکن ان نیٹ ورکس پر ان تنظیموں کے ہمدردوں کا پایا جانا ان کے لیے نئے ساتھی تلاش کرنے کا ایک پرکشش ذریعہ ہے اور ٹوئٹر جیسے سوشل میڈیا ذرائع اس قسم کے کام کے لیے بہترین جگہ ہیں۔