پاکستان کے صوبہ خیبر پختون خوا کے ضلع تورغر میں ایک قبائلی جرگہ نے اپنے علاقے میں کیمرے والے موبائل فون پر پابندی لگا دی ہے۔
تورغر کے ضلعی رابط افسر فرید خان نے نامہ نگار رفعت اللہ اورکزئی کو بتایا کہ دو دن پہلے مداخیل قبیلے کے ایک قبائلی جرگہ نے ڈوبا دوخیل اور آس پاس کے علاقوں میں کمیرے والے موبائل فون رکھنے پر پابندی لگائی اور خلاف ورزی کرنے والوں پر دس ہزار روپے جرمانہ عائد کرنے کا فیصلہ بھی کیا ۔
انہوں نے کہا کہ چند دن پہلے علاقے کے ایک نوجوان لڑکے یاسین کے موبائل فون پر ایک مقامی لڑکی کی تصویر دیکھی گئی تھی جس پر بعدازاں انہیں قتل کر دیا گیا۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ جب مداخیل قبیلے کے افراد کو یاسین کے موبائل فون پر لڑکی کی تصویر کے بارے میں معلوم ہوا تو یاسین اسی دن کراچی بھاگ گیا تھا۔
ضلع تورغر خیبر پختون خوا کے ہزارہ ڈویژن کا ایک دور افتادہ پہاڑی علاقہ ہے۔ رواں سال مارچ میں صوبائی حکومت کی جانب سے اس علاقے کو ضلع کا درجہ دیا گیا تھا۔ اس ضلع کا نام بھی کالا ڈھاکہ سے تبدیل کرکے اسکا نیا پشتو نام تور غر رکھ دیا گیا ہے۔ اس سے پہلے اس ضلع کا شمار قبائلی علاقے میں ہوتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ چند دن پہلے ہی یاسین کراچی سے تورغر پہنچا تھا۔ ان کے مطابق مقامی جرگہ نے کیمرے والے موبائل فون پر پابندی کا فیصلہ بھی یاسین کے قتل سے پیدا ہونے والی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا ہے۔
مقامی باشندوں کے مطابق قبائلی جرگہ علاقے کے ایک عالم دین مولانا احسان اللہ کی سربراہی میں منعقد ہوا۔
ضلع تورغر خیبر پختون خوا کے ہزارہ ڈویژن کا ایک دور افتادہ پہاڑی علاقہ ہے۔ رواں سال مارچ میں صوبائی حکومت کی جانب سے اس علاقے کو ضلع کا درجہ دیا گیا تھا۔ اس ضلع کا نام بھی کالا ڈھاکہ سے تبدیل کرکے اسکا نیا پشتو نام تور غر رکھ دیا گیا ہے۔ اس سے پہلے اس ضلع کا شمار قبائلی علاقے میں ہوتا تھا۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ علاقے کو ضلع کا درجہ تو دے دیا گیا ہے لیکن ابھی تک سارا نظام قبائلی ہے اور تمام معاملات قبائلی جرگوں کے ذریعے سے حل کرائے جاتے ہیں۔