آج صبح جب آفس پہنچا تو حسب روایت میں نے سب سے پہلے اخبار دیکھنے کا ارادہ کیا تو اس میں بہت سی گرما گرم خبریں جیسا کہ پاک امریکہ تعلقات اور سانحہ سیالکوت کے علاوہ سپورٹس کی خبروں میں جناب من شعیب اختر صاحب بھی گرما گرم طریقے سے پیش کئے گئے تھے۔
اسی طرح ایک اور خبر پڑھنے کو ملی جس کے بعد میں نے سوچا کہ کاش آج وہ مشین میرے ہاتھ لگ جاتی جو میں نے فلم میں دیکھی تھی۔ یعنی ٹائم مشین۔ اور میں اس کے زریعے اپریل 2012 کے وقت موجود اسکولوں کے گرد مٹر گشت کر سکتا اور بچوں کی میٹھی میٹھی آوازوں میں مستقبل کے تعلیمی اور تدریسی نظام کو آج ہی مزہ مزہ لے لے کر سن سکتا۔
میں کسی گورنمنٹ سکول کے پاس سے گزر رہا ہوتا ۔ جس کی چار دیواری گر رہی ہوتی۔ کچھ ہی اینٹیں چار دیواری کا بھرم رکھے ہوئے ہوتیں۔ کچھ بچے تو کمرہ جماعت کے اندر بیٹھے ہوتے تو کچھ بچے احاطہ سکول میں کسی درخت کے زیر سایہ استاد کی غیر موجودگی میں علم کی روشنی سورج کی مدد سے اپنے جسموں میں سمیٹتے ہوئے دیکھتا۔
جب قریب جا کر کسی جماعت کے طالب علم کو دیکھتا کہ اس نے کتاب کھولی ہوئی ہے۔ اور وہ اونچی آواز میں گورنمنٹ سکولوں والے لہجے میں پڑھ رہا ہوتا ۔
“ڈینگی ۔ ڈینگی ۔۔۔۔۔۔۔ ایک خطرناک ۔۔۔۔۔ بیماری ہے۔۔۔۔ یہ مادہ مچھر کے زریعے۔۔۔۔۔۔۔ پھیلتا ہے۔ڈینگی۔۔۔۔ صاف پانی پر ۔۔۔۔۔۔۔۔ پیدا اور جوان ہوتا ہے۔”
اسی طرح وہ بچہ اس کو زور و شور کے ساتھ رٹا مار رہا ہوتا۔
جب اگلی جماعت کے قریب پہنچتا تو وہاں کیا دیکھتا کہ ایک استاد جی نے ایک معصوم سے طالب علم کو مرغا بنا کر اس کے سامنے کتاب کھلوائی ہوتی۔ اور وہ کچھ اس طرح کا سبق پڑھ رہا ہوتا۔
” ڈرون ۔۔۔۔ ڈرون۔۔۔۔ ایک طیارہ ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ اس میں کوئی پائلٹ نہیں ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ آسمان پر ۔۔۔۔۔ ایک پرندے کی طرح نظر آتا ہے۔ اس میں موجود کیمرے زمین پر موجود آبادیوں اور سڑکوں کی تصویریں۔ بناتے ہیں۔”
اس کے بعد اس سے اگلی جماعت میں جب پہنچتا تو وہاں ایک مانیٹر طالب علم دوسرے طالب علم پر اپنا روب جما رہا ہوتا اور اسے کہہ رہا ہوتا۔
آج میرے فیس بک تے جے توں لائک نا کیتا نا تے میں ماسٹر ہوراں نوں کہہ دینا وے اینوں سبق نئیں اونداں۔
اس کے بعد جس بچے کو یہ دھمکی ملی ہوتی وہ اس کو لائک نہ کرنے کا ارادہ کر لیتا اور زور و شور سے یہ سبق پڑھ رہا ہوتا۔
“واپڈا ۔۔۔۔۔۔۔۔واپڈا ۔۔۔۔۔ جو ایک سرکاری محکمہ تھا۔ دن دُگنی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔رات چوگنی ترقی کر رہا ہے۔ جب اس نے ترقی کرتے ہوئے چھوٹے چھوٹے آئی پی پیز پیدا کئے تو لوڈ شیڈنگ میں 2 سے 4 گھنٹے کی پیدائش ہونا شروع ہو گئی۔اس کے بعد ۔۔۔۔۔ راجہ پرویز اشرف وزیر موصوف نے اس کو اور چار چاند لگائے تو واپڈا نے ۔۔۔۔۔۔۔ رینٹل پاور پلانٹ پیدا کئے۔۔۔۔۔۔۔۔ جس کے بعد لوڈ شیڈنگ 12 سے 18 گھنٹے تک جوان ہو گئی”
اس کے بعد میں واپس ٹائم مشین پر آکر بیٹھ جاتا اور 29 ستمبر 2011 کی تاریخ میں واپسی مکمل کر کے جناب شہباز شریف صاحب کے اس بیان کو آپ کی خدمت میں پیش کرنے کے بعد آپ عوام کے لئے اسے ارسال کر دیتا۔