دوپہر کی تپتی دھوپ میں اسے کئی بار ننگے پاؤں اور جی باؤ جی جی باؤ جی کہتے سنا تھا۔

وہ اک چائے والے کے کھوکھے پر گاہکوں کی آواز پر لبیک کہہ رہا ہوتا تھا اور اس کی زبان سے کبھی انکار نامی لفظ  نہ نکلا تھا۔ اپنے کام میں مگن کسی گھاگ شخص کی طرح وہ اک مسکراہٹ چہرے پر جمائے سارا دن ادھر سے ادھر جاتے آتے نظر آتا تھا۔

ہم دوست کبھی شام کے بعد جب نکلتے تو اس کھوکھے پر کچھ پل رک کر چائے ضرور پیتے تھے۔ اور اس کی جی باؤ جی میں وہی تازگی اور مسکراہٹ ہوتی تھی جس سے وہ شاید کام کا آغاز کرتا تھا۔

tea-shop-boy-famous

اک صبح  میں گھر سے باہر کھڑے اک شخص سے محو کلام تھا کہ مجھے اک مانوس سے آواز سنائی دی جو آہستہ آہستی قریب ہوتی جا رہی تھی اور آج اس آواز میں کچھ تبدیلی سی تھی۔ اس آواز میں تازگی نہیں تھی روہانسی سی آواز تھی جو میرے کانوں کے پردوں سے کم میرے دماغ کے پردوں سے ایک نشتر کی طرح چبھی تھی۔

مجھے نہیں جانا۔۔۔۔

ابا مجھے نہیں جانا

ابا وہ مجھے بہت گندی گالیاں دیتا ہے

مجھے نہیں جانا ۔۔۔۔۔

میں نے مڑ کر دیکھا تو اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور اس کا باپ اسے بازو دبوچے لئے چل رہا تھا اور اس کی میرے دماغ میں صرف اس کی ہی آواز پہنچ رہی تھی

مجھے نہیں جانا ۔۔۔۔۔

ابا مجھے نہیں جانا

ابا وہ مجھے راڈ سے مارتا ہے۔

مجھے نہیں جانا وہاں

اور میں دم بخود اس کی طرف دیکھے جا رہا تھا اور آنکھیں جیسی پتھرا سی گئی ہوں۔ اور دماغ میں ایک ہی لفظ بار بار ہتھوڑا چلا رہا تھا نہیں جانا۔

اب اس کا باپ اسے دبوچے میرے قریب سے گزر رہا تھا اب بھی وہ چلا رہا تھا مجھے نہیں جانا وہاں

ابا وہ مجھے بہت مارتا ہے، ابا

میں تھک جاتا ہوں وہاں ابا

میں بیٹھتا ہوں تو مجھے گالیاں دیتا ہے اور مجھ پر جوتے برساتا ہے

مجھے نہیں جانا وہاں ابا

ابا مجھے بھی سکول جانا ہے۔

ابا مجھے اس کی گالیاں نہیں پسند

ابا مجھے نہیں جانا

پھر مجھے ایک گلو گیر سی اجنبی سی آواز نے جیسے سکتے سے نکالا۔۔۔

پُتر ۔ تم کام دھیان سے کیا کرو

ابا مجھے نہیں جانا وہاں

پُتر تیری ماں بیمار ہے اس کی دوائی کا بھی خرچہ بہت ہے، پُتر توں کام دھیان سے کیا کر

ابا مجھے وپاں اچھا نہیں لگتا

ابا میں تھک جاتا ہوں۔

پُتر توں کام نئیں کریں گا تے کرایہ کتھوں دیواں گے

تیریاں بہناں دے کپڑے وی لینے نے ،

پُتر مینوں کل وی دیہاڑی نئیں لبی۔

اور انہی جوابوں نے اس کے بہت سے آنسوؤں کو سسکیوں  میں بدل دیا اور وہ چہرے پر بازو پھیرتے ہوئے  خود کو بوجھل قدموں سے اپنے باپ کے شانہ بشانہ چلنے پر آمادہ ہو گیا

 

 

By فخرنوید

قابلیت: ایم ایس سی ماس کمیونیکیشن بلاگز: پاک گلیکسی اردو بلاگhttp://urdu.pakgalaxy.com ماس کمیونیکیشن انگلش بلاگ http://mass.pakgalaxy.com ای میل:[email protected]

Leave a Reply

Your email address will not be published.