زندگی جو روز بروزدگرگوں اور مسائل و مصائب کا شکار ہو رہی ہے ۔ اس میں کہاں تک خالق السماوات والأرض کے احکامات و کن فیکون کا تعلق ہے اور کہاں تک خلقت کی رضا و رغبت ہے۔زندگی کے کسی بھی شعبہ میں نظر دوڑائیں تو ہمیں کچھ ایسے حالات نظر آتے ہیں جو ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنے کی بجائے اور خود احتسابی کے عمل پر چلنے سے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے اس سارے کئے دھرے کا معاملہ قدرت کی مرضی پر ڈال کر اپنا پلو جھاڑ کر نکلنے کی کوشش کر تے ہیں۔ ضمیر کہیں نا کہیں کچھ نہ کچھ ملامت تو ضرور کرتا ہے مگر اسے سُلانے کی ہمیں کافی مہارت حاصل ہو گئی ہے۔
دہشت گردی و بد امنی ملک خداداد میں ایسے پھیلی جیسے کسی اجاڑ بیابان میں جڑی بوٹیاں اور سرکنڈے سر نکالتے ہیں۔ ہم کہہ دیتے ہیں قدرت کو یہی منظور تھا کبھی یہ نہیں سوچا قدرت نے ہمیں فہم و ادراک دیا اور جسمانی قوت بھی عطا کی کہ اس زمین کو اجاڑ بیابان نہ بناتے اس میں پھولوں اور پھلوں کی آبیاری کرتے ۔ گوکہ شدت پسندی کو ضیا دور میں بڑھاوا دے کر روسی طاقت کو افغانستان میں امریکی آشرباد سے ملیا میٹ کیا۔ اگر اس وقت موثر پالسی بنا کر اس افرادی قوت کو کسی بہتر کام پر لگایا جاتا اور ان کی جسمانی و دماغی صلاحیتوں کو بیچ منجدہار نہ چھوڑا جاتا تو آج وہ شدت پسند بن کر اور اغیار کے زیر اتباع اسی تعلیم کے زیر تحت اس علاقہ میں انارکی پھیلانے کے بجائے انار پیدا کر رہے ہوتے ۔
حکومت وقت ہمیشہ سے زیر عتاب رہتی ہے کیونکہ اس کے ذمہ عوام کی فلاح و بہبود ہوتی ہے۔ اور عوام کی روزمرہ کی ضروریات و مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر پورا کرنے کے ساتھ حل نکالنا ہوتا ہے۔ مگر یہاں نہ تو حکومت اس طرح سے عمل کرتی ہے جس طرح سے ہم امید لگائے بیٹھے ہوتے ہیں ۔ کیا اس میں بھی قدرتی عمل دخل ہوتا ہے۔ کیا قدرت نے ہمیں کوڑھ دماغ اور برادری ازم و وڈیرہ ازم کے زیر سایہ پیاز اور جوتے کھانے کو پیدا کیا تھا یا اس نے ہمیں دین فطرت کے تحت آزاد پیدا فرمایا ۔ یہ ہمارے ہی ایسے اعمال ہوتے ہیں کہ ہم چھوٹے کرپٹ و بد کردار لوگ مل کر بڑے کرپٹ و بدکرادر لوگوں کو اپنا رہنما بنا کر اپنا نمائندہ بنا کر حکومت میں بھیج دیتے ہیں جو ہمارے کردار کی عکاسی کر رہے ہوتے ہیں۔
مذہب کے نام پر بھی بہت سے ایسے کارہائے نمایاں سرانجام دئیے جاتے ہیں جو قدرت کے کھاتے میں ڈال کر ہم جنت خریدتے ہیں یا اس پر اکسا کر جنت کی تقسیم کر رہے ہوتے ہیں۔ ہم مذہب میں بھی قدرت کی صوابدید میں عمل دخل دے رہے ہوتے ہیں ۔ جبکہ قدرت نے ہمیں کچھ اصول و ضوابط زندگی کے بتائے ہوئے ہیں۔ کیا کبھی ہم نے ان پر توجہ دی ۔ ہم اپنے خاتم النبین و رحمت اللعالمین کے بتائے ہوئے روشن راہ پر چلتے ہیں۔ جس نے ہمیں اللہ تعالی کی بتائی گئی ہدایات پر عمل کرنے کا درس دیا کہ حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد پر بھی توجہ دو ۔ اللہ تع غفور و رحیم ہے اپنے حقوق معاف فرمادے گا مگر حقوق العباد کا معاملہ آپ کو اس کے بندوں سے ہی معاف کروانا ہوں گے۔ وہ دین جو جنگ میں بھی بیماروں ، بوڑھو ں ، نہتوں ، بچوں ، عورتوں ، درختوں ، جانوروں اور پانی کے چشموں تک کی بھی حفاطت اور ان پر حملہ آور نہ ہونے کی تعلیم دیتا ہے۔ کیا ہم آج اس کے ان بنیادی اصولوں پر عمل کر رہے ہیں۔ کیا ہم دین کی بنیادی اصلاح معاشرہ و حقوق و فرائض پر توجہ دے رہے ہیں۔
اگر موجودہ دنوں کے حالات و واقعات پر نظر دوڑائیں تو مسلم اکثریتی ملک میں اقلیتوں کے جان و مال کی حفاظت کے قوانین کو موثر بنا کر اکثریتی آبادی کے جذبات و احساسات کا خیال کرتے ہوئے ایسے کاموں سے حکومت وقت اجتناب کرنا چاہیے جس سے لوگوں کو شدت پسندی کی جانب راغب کیا جا سکے۔ ایسی کونسی قیامت آن پڑی تھی جو ختم نبوت کے متفقہ قوانین و آئین کے برخلاف عمل درآمد و قانون بنانے کی ضرورت پیش آگئی ۔ اور پھر سے ملک میں شدت پسندی کی آگ کو بڑھاوا دینے کی کوشش کی گئی۔ کیوں لوگوں کے جذبات و مذہبی لگاو پر وار کیا جاتا ہے؟ کیا کچھ بیرونی و اندرونی عناصر جان بوجھ کر ملک میں ایسے حالات پیدا کر رہے ہیں جس سے ملک دوبارہ سے دہشت گردی کی بھینٹ چڑھے اور فرقہ واریت پھیلے۔