پاکستان میں جہاں ہرطرف صاحب اقتدار اور دولتمندوں کے لئے انصاف کا بول بالا ہے وہاں غریبوں کے لئے چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لئے بھی انصاف ممکن نہیں۔ ہمارے ملک میں ادارے تو بنائے جاتے ہیں ان کے لئے بجٹ بھی مختص کئے جاتے ہیں لیکن ان اداروں کی کارکردگی صفر ہوتی ہے۔
جس کی ذمہ داری اداروں کے سربراہوں پر بھی ہے تو عوام پر بھی ہے جو اس ادارے سے درست طریقے سے مستفید نہیں ہو پاتے۔ یہاں ہر طرف چور بازاری اور ملاوٹ شدہ اشیا کی فروخت عام ہے تو کچھ لوگ دھڑلے سے غیر معیاری اشیا فروخت کرتے ہیں تو کچھ لوگ غیر معیاری خدمات پیش کرتے ہیں۔
ایک چیز جس کی صارف سطح پر قیمت مخصوص کر دی گئی ہے۔ اس کی بھی قیمت یہاں پر مقام کے حساب سے الگ الگ ہوتی ہے۔اگر ایک کولڈ ڈرنک کی قیمت عام شاپنگ سنٹر میں 20 روپے ہے تو اسی کولڈ ڈرنک کی قیمت ہسپتال کنٹین ، ائیر پورٹ کنٹین وغیرہ پر مختلف ہو گی۔
ایسے ہی موبائل سروسز میں بھی یہ موبائل کمپنیاں خود بھی صارفین کو لوٹ رہی ہیں تو ان کے فرنچائزی بھی دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔ ایسی بے شمار چیزیں ہیں جن میں ہم اپنے روزمرہ کی زندگی میں ان قانون شکن لوگوں سے شکار بنتے رہتے ہیں لیکن ہم ان کے خلاف آواز اس لئے نہیں اٹھاتے کے چلو یار ایک روپے کی ہی تو بات ہے دفعہ کرو۔
کنزیومر پروٹیکشن کونسل و کورٹ کے متعلق میں پہلے بھی اپنے مراسلے میں تفصیل سے بتا چکا ہوں کہ یہ کیسے کام کرتی ہے۔ اور اس کے دائرہ اختیار کیا ہے۔
جب تک ہم لوگ اس ادارے کے متعلق معلومات حاصل نہیں کریں گے ہم لوگ اس ادارے سے مستفید بھی نہیں ہو سکیں گے اور جو لوگ اس ادارے کی اہمیت سے آگاہ ہیں وہ اس ادارے تک رسائی بھی حاصل کرتے ہیں اور انصاف بھی حاصل کرتے ہیں۔ یہاں میں کچھ خبریں پیش کروں گا جس سے آپ کو اس ادارے کی کارکردگی کے بارے میں اندازہ ہو گا۔
اپ ڈیٹ:
درج بالا کیس میں کنزیومر کورٹ کو پہلا حکمنامہ
جنگ اخبار مورخہ 16 مئی 2014
اوپر بیان کی گئی خبروں کے متن سے یہ تو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ لوگوں کا رجحان بڑھ رہا ہے اس طرف لیکن حکومتی سربراہ کو بھی چاہیے کہ وہ اس ادارے کی کارکردگی رپورٹ ہفتہ وار نہیں تو ماہانہ کارکردگی رپورٹ ضرور طلب کرے تا کہ معلوم ہو سکے کتنے لوگوں نے دادرسی کے لئے درخواست دی اور ان میں سے کتنے لوگوں کی دادرسی ہو سکی۔