ماضی کا ہر پل تاریخ دان قید کر لیتے ہیں اور انہیں اپنے الفاظ کی زنجیریں پہنا کر انہیں امر کر دیتے ہیں۔ تاکہ آنے والی نسلیں ان الفاظ کی زنجیروں کو دیکھ کر ان لمحوں کی حقیقت کو جان سکیں۔
کچھ دوست مسجد کے ساتھ ملحقہ ریلوے کی زمین پر اگی گھاس پر کرسیاں لگائے بیٹھے تھے۔ پہلے تو وہ آپس میں لڑائی جھگڑا کر رہے تھے جو عموماً دوستوں میں ہوتا رہتا ہے۔ جس کے بغیر دوستی کا مزہ ہی نہیں آتا۔ ایک دوسرے کو صلواتیں سنائی جا رہی تھیں اور کوئی رات کے 10 بجے کا ٹائم ہونے والا تھا۔ اسی اثنا میں ایک لاوڈ سپیکر سے آواز آنا شروع ہو گئی ۔ جس میں ایک مقرر شہزادہ جنت اور نواسہ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شان بیان کر رہا تھا۔
ان مقررین کی تقریروں کی آواز گونجتی رہی۔ لیکن چونکہ ان دوستوں نے کبھی بھی تفرقہ بازی کو پسند نہیں کیا اس لئے انہوں نے ان مقررین کی جاہلانہ اور اپنے لئے خوشامدی الفاظ کی پیاس میں حاضرین کے لئے بولے جانے والے کلمات سے لاتعلقی ظاہر کرتے ہوئے۔ آپس میں باتیں کرنا شروع کر دیں۔ چونکہ ماحول بدل گیا تھا اس وجہ سے موضوع بھی دوستوں کے درمیان بدل گیا۔ شان نواسہ رسالت اور شہدا کربلا کے بارے با ادب زکر کرتے ہوئے۔ ان میں سے ایک نے یہ سوال اٹھایا کہ حیرت کی بات نہیں اسلام کے عروج کا زمانہ تھا۔ نواسہ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر اس قدر مظالم ڈھائے جا رہے تھے۔ اہل بیت کی شان میں گستاخی ہو رہی تھی۔ کلمہ گو خا موش تھے۔ کوئی اس ظلم و بربریت کے خلاف کیوں نہیں بول رہا تھا ؟ کیوں وہ لوگ اس کے خلاف احتجاج نہیں کر رہے تھے؟کیوں کلمہ گو حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ کھڑے نہیں ہوئے تھے؟ جبکہ اس وقت کلمہ گو لوگوں کی تعداد بھی کافی تھی۔
جبکہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہے کہ ۔۔۔۔۔۔ حدیث مبارک کا مفہوم ہے ”مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں ۔جب جسم کے کسی ایک حصے کو تکلیف پہنچتی ہے تو سارا جسم اس کا درد محسوس کرتاہے”۔
اس پر کچھ دوست کہنے لگے یار ویسے حیران و پریشان کر دینے والی بات ہے یہاں تو ایک نام نہاد پیر کے مرید اپنے پیر کے خلاف اختلاف رائے برداشت نہیں کر پاتے۔کیا وجہ تھی کہ وہ لوگ خاموش رہے انہوں نے اس نازک موڑ پر اسلام کے سپاہیوں کا ساتھ نہیں دیا۔
اس بات کے کتم ہونے پر ایک دوست نے کہا جیسے آج تم ان لوگوں کو کہہ رہے ہو کہ وہ لوگ حق کے ساتھ کھڑے کیوں نہ ہوئے۔ ان لوگوں نے ایمان والوں کے ساتھ ملکر جہالت کا مقابلہ کیوں نہیں کیا؟
اسی طرح آنے والے زمانے کے لوگ ہمارے بارے میں کہیں گے کہ کفریہ نظام کی طرف سے ہونے والے مسلمانوں پر حملے اور مسلمانوں کا بے دریغ قتل ہو رہا تھا۔ اس وقت کے مسلم نوجوان کیا کر رہے تھے؟اس وقت کے علما و مفتی صاحبان کیا علم بانٹ رہے تھے کیا اسلام کی تعلیم دے رہے تھے؟
ہم بھی ماضی کا حصہ بن کر تاریخ کے الفاظ میں قید ہو رہے ہیں۔ اور آنے والے لوگ جہاں شہدا کربلا کا زکر کریں گے۔ وہیں اس دور کا بھی زکر کریں گے ۔