جانے کب ہوں گی کم ۔۔۔۔۔ نفرتیں
نفرت لفظ یوں تو چار حروف پر مشتمل ہے جیسے محبت مگر یہ چار حروف کی ہی ساری کہانی ہے جو اس کائنات میں چل رہی ہے۔ جیسے نام اللہ میں حروف چار ہیں تو نام محمد میں بھی چار حروف ہیں۔آج بات ہو گی ان چار لفظوں محبت و نفرت کی۔
ہمارے معاشرے میں محبت سے زیادہ نفرتیں کیوں پنپ رہی ہیں؟ ہمارا تو دین اسلام بھی ہمیں محبت کا درس دیتا ہے۔ پھر یہ نفرتیں کدھر سے اور کیوں ہماری زندگیوں میں در آتی ہیں؟
معاشرے میں عدل و انصاف اور مساوات دو بنیادی بیج ہیں۔ جن کی بڑھوتری کے ساتھ ہی معاشرے میں محبت و نفرت بھی پروان چڑھتی ہے۔ اگر تو معاشرے میں مساوات قائم ہے عدل و انصاف ہے تو محبتیں بڑھیں گی۔ اور اگر معاشرے میں عدل و انصاف اور مساوات کا فقدان ہو گا تو نفرتیں
کدورتیں ہمارے دلوں میں راج کریں گی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ میری اردو گرد نا انصافی اور مساواتی تفاوت ہو اور میں اردو گرد خوشیاں اور محبتیں ملیں۔
ہماری معاشرتی بنیادیں ہی نفرت سے رکھی جاتی ہیں اور یہ نفرت کی بنیاد ہی پھر ایک بڑی عمارت بن کر ہمیں اپنے اندر مدفون کرتی جاتی ہے۔ اور اس پر دہشت گردی و نقص امن کے بھوت پریت ننگا ناچ ناچتے ہیں۔
کسی بھی قوم اور معاشرے کا مستقبل ، بچے ہوتے ہیں۔ اگر ان میں ہم نفرتوں کو پالنا شروع کر دیں گے تو وہ ہمیں مستقبل میں نفرتوں کی پیداوار ہی دیں گے۔ کیا کبھی ارباب اختیار نے یہ سوچا ان کی گاڑی کے ساتھ ساتھ سڑک پر پیدل چلنے والے بچے بھی اتنے ہی حقدار ہیں سہولتوں کے جتنے ان
کے اپنے بچے۔
جب میں اپنے بچوں کو اچھے کپڑے پہنا کر اور اچھے سکول میں لے کر جا رہا ہوتا ہوں۔ تو سڑک پر پیدل چل کر اس اچھے سکول کے ساتھ موجود سرکاری سکول میں جانے والے یہ بچے بھی تقریباً ایک کلومیٹر کا فاصلہ طے کررہے ہوتے ہیں۔ میرے بچے تو صرف سفر کر رہے ہوتے ہیں جبکہ یہ پیدل
چلنے والے بچے موسم کی شدت اور سڑک کی اونچ نیچ کے ساتھ احساس کمتری کو بھی ساتھ لئے سفر کر رہے ہوتے ہیں۔ کسی بچے کے پاؤں میں ٹوٹی جوتی ہوتی ہے تو کسی بچے کے تن پر موجود لباس میں پیوند لگے ہوتے ہیں تو کسی کے بٹن ٹوٹے ہوتے ہیں۔ ان کے دل میں بھی ایک کسک جنم لے رہی
ہوتی ہے کہ ہمیں اچھے کپڑے اور سواری کیوں نہیں ملی؟ ہمیں کتنی اتنی گرمی میں پیدل چلنا پڑ رہا ہے؟ ہمیں کیوں سردیوں میں ٹھٹرنا پڑ رہا ہے؟ ہمیں کیوں اچھا سکول میسر نہیں ہے؟ لیکن کبھی ہماری آنکھوں پر بندھی چکا چوند کی پٹی نے ان معصول چہروں پر لکھی یہ تحریریں پڑھنے کو ہمت ہی
نہیں دی۔ ہم اتنے بے حس ہو جاتے ہیں کہ ہم اپنے بچوں کو روشن حال دیکھ کر اپنے ضمیر کو سُلا دیتے ہیں سو جا تو سو جا ۔۔۔
جب یہی بچے کسی پارک میں یا گلی میں ملتے ہیں تو یہ دوسرے بچوں کے پاس موجود کھلونوں کو دیکھ کر ان کی طرف لپکتے ہیں تو یہی بڑے انہیں جھڑک دیتے ہیں ۔ پھر بچپن میں ہی ایک جارحانہ رویہ کی پرورش ان بد نصیب بچوں میں پیدا ہوجاتا ہے۔وہ چپکے سے یا سامنے سے ان کھلونوں کو توڑ کر یا چھیننے
کی کوشش کرتے ہیں ۔ چھیننے والے کے اندر جارحیت اور مایوسی پیدا ہوتی ہے تو جس سے چھینی جا رہی ہوتی ہے اس کے اندر خوف اور نفرت کی تہہ چڑھنا شروع ہوجاتی ہے۔اور یہ بچے ایسی دیوار کو چُننا شروع کر دیتے ہیں جو معاشرے میں نفرت کے نام سے جانی جاتی ہے۔
تعلیمی سرگرمیاں ہوں یا صحت و رہائش تو ہمارے بچے تین مختلف درجات میں پل رہے ہیں ، جس میں ایک غریب طبقہ کے لئے ۔ اس کے بعد ایک درمیانہ طبقہ کے لئے اور تیسرا طبقہ اشرافیہ کا ہے۔
جب معاشرے کی اکائی ہی عدل و انصاف اور مساوات پر یقین نہیں رکھے گی اور اسے اپنے معاشرے پر لاگو کرنے کی کوشش نہیں چاہے گی تو پھر کیسے ہم مجموعی طور پر معاشرے کی بہتر تعمیر کر سکتے ہیں۔ ہمارے منتخب و چُنے گئے حکمران ہمارے اوپر یہی معاشرہ مسلط رکھیں گے۔ اور یہ نظام تا وقت
قیامت قائم و دائم رہے گا۔ جب تک یہ طبقاتی کشمکش اور فرق رہے گا ہمارا معاشرہ اسی طرح نفرتوں سے بھرا رہے گا اور ہم اپنوں کے ہاتھوں ہی قتل ہوتے رہیں گے۔
ہمارا معاشرہ آج تاریخ کی بدترین سطح پر کھڑا ہے جس میں دہشت گردی اپنی عروج پر ہے اور یہ وہی مایوسیاں اور کسک ہیں جو ہمارے معاشرے کو پھولوں سے سرخ و سبز کرنے کی بجائے بم بارود سے سرخ و سیاہ کر رہی ہیں۔ ہ