کسی قصبے میں ایک شخص اپنے خاندان کے ساتھ رہائش پذیر تھا۔وہ وہاں کے سماجی ومعاشی حالات کی وجہ سے تنگ دست و فاقی کشی کا شکار ہو گیا۔اسے نا کوئی روزگار ملتا اور نہ ہی خاندان والوں کی طرف سے اسے اپنا یا جاتا۔ آخر وہ دل شکن ہو کر قصبے کو چھوڑ کر جنگل کی طرف چلا گیا اور جیسے تیسے زندگی کے باقی ماندہ دن گزارنے لگا اور اپنے اللہ سے آہ و گریہ زاری کرنے لگا۔ اسی طرح دن رات گزرتے رہے۔
ایک دن وہ بندہ جنگل میں آہ و گریہ زاری کر رہا تھا کہ اس کے سامنے انسانی روپ میں ملک الموت حاضر ہو گئے اور اس بندے سے پوچھا تم اس بیابان جنگل میں کیا کر رہے ہو تمہیں اپنی جان عزیز نہیں ہے تم کیوں یہاں مرنا چاہتے ہو۔ جس پر وہ بندہ بولا قصبے میں بھی تنگ دستی و فاقی کشی سے جان جانی تھی تو یہاں بھی چلی جائے میں تو پہلے ہی جینا نہیں چاہتا اپنی زندگی سے تنگ ہوں۔ اس کی یہ بات سن کر ملک الموت نے اس بندے سے سارا ماجرا بیان کرنے کو کہا۔ بندے نے اپنے ساتھ بیتے تمام حالات کی کہانی ملک الموت کے گوش گزار کر دی جسےسن کر ملک الموت کو بھی بہت تکلیف ہوئی آخر کار ملک الموت نے اس بندے کو راضی کرنے لگا کہ وہ زندگی کی طرف واپس لوٹ جائے اور قصبے میں واپس رہائش اختیار کر لے۔
لیکن وہ بندہ مُصر تھا کہ وہ قصبے میں واپس کیوں چلا جائے اور وہاں تو پہلے ہی معاشی حالات بہت خراب ہیں اور وہ بھی انہی مشکلات میں واپس نہیں جانا چاہتا جس پر ملک الموت نے اسے کہا کہ میں تمہارا ساتھ دوں گا اورتمہیں اچھا روزگار مل جائے گا۔
ملک الموت نے اس بندے سے کہا کہ جنگل میں سے کچھ جڑی بوٹیاں اکٹھی کر لو اور ان کو پیس کر دوائیاں بنا لو۔ اور واپس قصبے میں جا کر حکمت کی دکان سجا لو اور تھوڑی بہت اپنی مشہوری کر لو۔لیکن بندے نے کہا کہ مجھے تو حکمت نام کی کسی چیز کا بھی معلوم نہیں ہے میں ایسے کیسے کر سکتا ہوں۔ ملک الموت نے اسے کہا اس بارے تم پریشان نہ ہو۔ تمہیں جب کسی مریض کے پاس لے جایا جائے گا تو تم نے مریض کو لیٹانے کے لئے کہنا ہے اگر میں وہاں صرف تمہیں نظر آیا کروں گا۔ اگر تو میں تمہیں مریض کے سرہانے والے طرف نظر آوں تو تم نے اس مریض کو دوائی نہیں دینی ہے۔ اور کہہ دینا ہے یہ نہیں بچے گا اور اگر میں تمہیں اس مریض کے پاؤں کی طرف نظر آؤں تو تم نے دوائی دے دینی ہے وہ بچ جائے گا۔
آخر کار اس بندے نے ملک الموت کے اصرار پر واپس قصبے میں جا کر حکمت کی دکان کھول لی۔اور اپنے ارد گرد اپنے کام کے بارے میں مشہوری کرنے لگا کہ وہ جنگل میں سے ایسی دوائیں لے کر آیا ہے جس سے وہ بیماریوں کا علاج کر سکتا ہے۔ تھوڑے عرصے میں اس کے پاس مریض آنا شروع ہو گئے۔ وہ ملک الموت کے کہنے کے مطابق مریض کو چارپائی پر لیٹا دیتا اگر تو اسے ملک الموت سرہانے والی طرف نظر آتا تو وہ دوائی دینے سے مختلف بہانے کر کے انکار کر دیتا کہ اب بہت دیر ہو چکی ہے۔ اس کا مرض اتنا بڑھ گیا ہے یہ نہیں بچے گا میں اس کا علاج نہیں کروں گا۔ جس سے وہ مریض چند دنوں میں ہلاک ہو جاتا ۔ اور اگر کسی مریض کے پاؤں والی طرف ملک الموت نظر آجاتا تو وہ کہتا کوئی مسئلہ ہی نہیں اس کی بیماری کا علاج میرے پاس ہے اور وہ اسے دوائی دے دیتا جس سے وہ کچھ دنوں میں ہشاش بشاش ہو جاتا۔ اسی طرح روز و شب اس کی دکانداری چلتی رہے پورے قصبے اور ارد گرد کے علاقوں میں اس کی دھاک بیٹھ گئی کہ بہت پایہ کا حکیم ہے اس کے ہاں دولت کی کافی ریل پیل دیکھ کر اس کے باقی ماندہ خاندان والے بھی اس کے پاس واپس آگئے اور وہ مل کر رہنے لگے۔
جوں جوں دولت کی ریل پیل میں اضافہ ہوتا گیا۔ دولت کو سنبھالنے اور اس کی حفاظت کی فکر بھی لاحق ہوتی گئی۔ ایک دن وہ بندہ رات کو تھکا ہارا سویا اور دولت کی فکر و پریشانی کی وجہ سے اچانک اس کی آنکھ کھل گئی جونہی اس کی انکھ کھلی اس نے دیکھا ملک الموت اس کے سرہانے کی طرف کھڑا ہے۔ بندہ چونکہ جانتا تھا کہ اس کے اس طرف کھڑنے ہونے کا کیا مطلب ہے لہذا اس نے چالاکی دکھاتے ہوئے چارپائی پر ہی اچھل کر اپنے پاؤں ملک الموت کی طرف کر دئیے اور شور مچانے لگا تم سے تو میں نمٹ لوں گا۔ لیکن پھر ملک الموت اس کے سرہانے کی طرف کھڑا نظر آیا۔ اس نے پھر اچھلنا شروع کر دیا۔ یہ سب ماجرا دیکھ کر اس کے گھر والے پریشان ہو گئے اور انہوں نے اسے بازؤں اور ٹانگوں سے دبوچ لیا کہ اسے نا جانے کیا ہو گیا ہے۔ اور اسے چارپائی سے باندھ دیا۔
بندے کے منہ سے آخری الفاظ یہ نکلے کہ “تم سے تو میں نے نمٹ لینا تھا مجھے تو اپنوں نے مروا دیا”