سکول کے زمانے کی بہت سی یادیں ہوتی ہیں۔ لیکن کبھی کوئی بھی بری یادیں شئیر نہیں کرتا ہمیشہ اچھی یادیں یا شرارتی یادیں ہی شئیر کرتے ہیں۔ لیکن بندہ کچھ الگ مزاج کا ہے اس کے باوجود اس روایت کو قائم رکھتے ہوئے اچھی ہی یاد آپ سے شئیر کرے گا۔
میں نے نرسری سے مڈل تک کی تعلیم انگلش ماڈل ہائی سکول نوشہرہ ورکاں سے حاصل کی جو اس وقت وہاں کا ایک نامور سکول تھا۔جماعت ہشتم میں تھے اس وقت میڈیا اتنا پھیلا نہیں تھا۔ اس لئے بس ہلکا پھلکا عشق مشعوقی ہی چلتی تھی۔ اسلئے سکول میں لڑکے اور لڑکیوں کی اکٹھی کلاس تھی۔ جس میں ہم 4 لڑکے اور 10 کے قریب لڑکیاں تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جی جی وہ بھی انہی دس میں شامل ہے۔۔۔۔۔ مگر ایناں فری نئیں ہونا۔۔۔
ہماری ایک خاتون استاد تھی اس کا نام تھا شمع، جو ہمیں زیادہ مضامین پڑھاتی تھیں۔ اس لئے اس سے مار کھانے سے بچنے کے لئے میں نے اخباری میگزین اکھٹے کرنا شروع کر دئیے تا کہ اس کے مضامین کے دوران پٹائی سے بچا جا سکے۔
میرا طریقہ واردات بہت سادہ سا ہوتا تھا۔کہ میں اپنی کتاب استانی جی کو پکڑا کر زبانی سنانا شروع ہو جاتا تھا۔ اور درمیان میں توقف بالکل نہیں کرتا تھا لگاتار بس بولتے جانا ہے چاہے اس میں رات کو دیکھی گئی فلم کی سٹوری ہو یا کوئی چڑھتی جوانی میں سنے گئے گانے ہوں۔ بس توقف نہیں کرنا جب تک استانی صاحبہ نے نہیں کہہ دینا کہ ٹھیک ہے جاؤ بیٹھ جاؤ۔۔۔۔۔۔۔ کئی بار نوبت یہ آجاتی کے سبق تو آدھے صفحے کا ہوتا تھا لیکن جتنا ہم سنا چکے ہوتے تھے وہ پوری کتاب سے بھی دو گنا ہو جاتا پھر تھک کر کہہ دیتے میڈم جی اب جاؤں۔ وہ کہہ دیتی ٹھیک ہے جاؤ بیٹھ جاؤ۔۔۔۔۔ میرے بعد سنانے والوں کو بھی موج ہو جاتی۔
آپ کے زہن میں آرہا ہوگا۔۔۔ کہ یہ بندہ لمبی چھوڑ رہا ہے کہ ایسا ایک یا دو دفعہ ہو سکتا ہے بار بار نہیں۔ جناب اس کا جواب یہی ہے کہ میں نے خواتین کی نفسیات کو زیر غور رکھتے ہوئے۔ اپنا ایکشن پلان بنایا تھا۔ میں نے جو اخباری میگزین اکٹھے کئے ہوتے تھے ان میں سے تین عورتیں تین کہانیاں والا صفحہ نکال کر اس طرح سے کتاب کی جلد کی ہوتی تھی۔ کہ ہماری استانی صاحبہ کتاب پکڑتے ہی اسے بند کرکے باہر سے تین عورتیں تین کہاںیاں پڑھنا شروع ہو جاتیں اور ہم سبق سنانے وہ کہانی پڑھتی ہم فلمی کہانی سناتے ان کا بھی کام ہو جاتا ہمارا بھی کام ہو جاتا
لیکن جس دن ہمیں کوئی نئی میگزین نہیں ملتی اس دن ہمیں سبق یاد کرنا پڑتا۔