پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں بہت سے نامور اور بہادر سپوت پیدا ہوئے جنہوں نے ملک و قوم کی دل و جان سے بہت خدمت کی اور اس ملک کو عظیم قوم سے نوازا۔
مارشل لا٫ حکومتوں نے سیاسی حکومتوں یعنی نام نہاد جمہوری حکومتوں کو لتا ڑا اور نام نہاد جمہوری حکومتوں نے مارشل لا٫ حکومتوں کو ساری خرابیوں کا باعث گردانا۔
ہمارے ملک میں زمانہ حال میں بھی ایک نام نہاد جمہوری حکومت موجود ہے جس میں بہت سے نامور کرپٹ و قاتل ذدہ ارکان اسمبلی موجود ہیں۔ یہاں ذدہ کا لفظ حفظ ماتقدم کے طور پر استعمالا ہے تا کہ کل کلاں ہمارے بھاگ جاگیں تو کوئی ہمیں قانونی نوٹس نے نواز دے کہ یا تو ثابت کرو یا معافی و جرمانہ کے مرتکب ہو جاو۔
“ذدہ کا مطلب یہاں الزام کے زمرہ میں گردانا جائے” ویسے عوام ہماری اتنی بھی اندھی نہیں کے سمجھے نا ۔۔۔۔۔
اس نام نہاد و کرپٹ و قاتل ذدہ پارلیمنٹ نے جہاں اپنے آپ کو دودھ سے دھونے کے لئے اظہار یکجتی کا مظاہرہ کیا۔ ویسے بھی سر پر موت کھڑی ہو تو اتحاد و یگانگت ہی بہترین اصول ہوتا ہے۔
دوسری طرف اس پارلیمنٹ دشمن جماعتوں نے دھرنے دے دئیے۔ اور ایوان اقتدار پر یلغار و پر امن رہنے کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیا۔ قسمیں کھائیں تو کچھ نے امپائر کی انگلی سے بھی ڈرایا۔ ایک طرف پارلیمنٹ میں بیٹھے لوگ ڈرے تھے تو دوسری طرف دھرنے والے بھی ڈرے تھے کج بے عزتی جئی نا ہو جاوے۔
اس مقصد کے لئے سیاسی جرگہ کا تشکیل ہوا۔ تا کہ دونوں قوتوں کو عزت سے بچا لیا جاوے اور عوام کو ٹرک کی بتی پیچھے ہی لگا رہنے دیا جاوے۔ لیکن حکومت نے بھی اس(سیاسی جرگہ ) حکیم کے ساتھ ایسا سلوک کیا جو کچھ یوں ہے۔
ایک بندے کو اس کی بیوی نے زہر سے مارنے کی دھمکی دے ڈالی۔ بندہ ڈرا ہوا۔ حکیم صاحب کے پاس پہنچا۔
حکیم صاب میری زنانی مینوں زہر دے کے مارنا چاہندی اے۔ مینوں بچا لو۔۔۔۔
حکیم صاب نے اسے حوصلہ دیا اور کہا اگلی دفعہ میرے پاس تو اپنی بیوی کو لے کر آنا
وہ بندہ اگلے ہی دن اپنی بیوی کے ساتھ حکیم کے پاس پہنچ گیا۔ اور دوبارہ التجانا اشارہ کیا۔
حکیم صاب نے بندے کو باہر نکالا اور اس کی بیوی سے گفت و شنید شروع کر دی۔ اور کوئی دو گھنٹے بعد باہر نکلا اور اس بندے کے پا س پہنچ کر بولا۔
یار میں تیری زنانی نال 2 گھنٹے گل کیتی اے تے اس نتیجے تے اپڑیاں واں کہ توں زہر ای کھا لے۔