رمضان المبارک کے وسط سے ہی سوشل میڈیا پر مختلف موضوعات سرگرم ہیں جن میں ، انقلاب ، آزادی مارچ اور اردو بلاگرز اور ایک شخصیت کے درمیان کافر و کافری کا کھیل جاری ہے۔
انقلاب:سب سے پہلے انقلاب کی بات کر لیتے ہیں۔ انقلاب ہمیشہ خونی ہوتے ہیں کیونکہ جب تک کسی فصل سے پھل حاصل کرنا ہو اس کی زمین کو سیراب کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح اگر ہمیں اپنے ملک میں اچھا نظام چاہیے اور کرپشن مافیا سے آزادی اور انصاف کے یقینی حصول کے لئے ملک میں انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اب ان انقلابی اقدامات کی آپ ایسے لوگوں سے کیسے امید کر سکتے ہیں جنہیں آپ گزشتہ تین دہائیوں سے آزما رہے ہیں۔ اصل میں اس نظام کی تباہی کے ذمہ دار ہی تو یہی لوگ ہیں جو آج بھی آپ کو مختلف ٹی وی اشتہارات پر عوام کی خون پسینے کی کمائی کے ٹیکس سے چلائے جا رہے ہیں کہ ملک میں ترقی ہو رہی ہے۔ اور ساتھ یہ نہیں بتاتے کہ پاکستان کے بیرونی قرضوں میں اضافی گزشتہ نصف صدی میں اتنا نہیں ہوا جتنا اس سوا سالہ دور میں ہوا۔ تو پھر ایسے لوگوں سے آپ کیسے اچھائی کی امید کر سکتے ہیں۔ خواہ ہمیں اس مذہبی بندے سے مذہبی و مسلکی اختلافات ہزاروں ہوں لیکن اگر آپ اس کے ایجنڈا کو دیکھیں کہ وہ کس انقلاب کی بات کررہا ہے۔ اور کس سسٹم کو اپنانا چاہ رہا ہے۔ تو میرا نہیں خیال سیاسی طور پر اس کی مخالفت کا کوئی جزو نکلتا ہے۔ کیا آپ کو ایسی جمہوریت اور آئین پسند ہے۔جس کے کچھ حصوں پر تو مکمل عمل درآمد ہو لیکن کچھ آئینی حصوں کو مکمل طور پر معطل کئے رکھا جائے۔ یہ کیسی جمہوریت ہے جو سات سالوں میں آئین کے ایک ضروری عمل کو روکے ہوئے جو اس جمہوریت کی بنیاد ہے۔ کہ عوام میں نچلی سطح تک اختیارات کا نظام دیا جائے جو کہ بلدیاتی انتخابات کی صورت میں ہی ممکن ہیں۔ عوام کے بنیادی مسائل کا حل بھی بلدیاتی انتخابات میں ہے نہ کہ ان صوبائی و قومی اسمبلی کے انتخابات میں۔ جب بنیادی جمہوریت ہی نہیں موجود ہو گی تو اس پر کھڑی ہونے والی جمہوریت کیسے قائم رہ سکتی ہے۔ کیا کبھی ایک اینٹ کی بنیاد پر عمارت کھڑی رہ سکی ہے؟
تو جناب اس استحصالی نظام سے چھٹکارہ حاصل کرنا ہو گا۔ اس کی آج بھی ضرورت ہے اور آئیندہ بھی رہے گی۔ اب یہ اس منتشر قوم پر ہے کہ اس نے سو پیاز کھانے ہیں یا سو جوتے۔
آزادی مارچ: آزادی مارچ ایک سیاسی جماعت کی طرف سے زوروشور سے جاری ہے۔ لیکن مجھے اپنے طور پر اس سیاسی پارٹی کے اس مارچ کے ایجنڈے کی سمجھ نہیں آئی ہے۔ کیا صرف انتخابی دھاندلیوں کے لئے مارچ کیا جائے گا۔ تا کہ یہ نظام جوں کا توں رہے ۔ ان کچھ حلقوں میں اگر دھاندلی ثابت ہو جاتی ہے اور ضمنی الیکشن کروا دیا جائے تو کیا طوفان آئے گا۔ کیا اس ملک کی عوام کو سکھ کا سانس ملے گا اس قوم کو کوئی ریلیف ملے گا یا بس آزادی مارچ کے نام پر عوام کو کھجل خراب ہی کرنا ہے۔ اگر یہ حکومت ختم ہو جاتی ہے۔ آزادی مارچ کی صورت میں تو کیا دوبارہ جو الیکشن ہوں گے وہ فرشتے آکر کروائیں گے؟ اوہ اللہ کے بندہ ابھی تمہارے پاس کچھ اسمبلی کی سیٹیں موجود ہیں ان کی مدد سے پریشر ڈال کر ایسا انتخابی نظام بنا لو اور اس کے بعد حکومت گرا کر نئے انتخابات کی ڈیمانڈ کر دو۔ مٹی کے چولہے پر ہنڈیا نہیں پک رہی تو جناب اس مٹی کے چولہے کو تو نا توڑو۔ اس کے بعد اینٹوں کا چولہا بنا کر ہنڈیا پکانی پڑے گی تو ہوا اس چولہے کی آگ کو نہیں جلنے دے گی۔ آزادی مارچ والوں اپنے انتخابات سے پہلے والے ایجنڈے پر چلو اور ملک میں تبدیلی کے لئے نکلو۔اس نظام کے تحت ملک کبھی ترقی نہیں کر پائے گا۔
کافر و کافری اور اردو بلاگرز:
اردو بلاگرز کی مجھے یہ بات بہت پسند تھی کہ وہ ہر موضوع کو بہت اچھے انداز سے پیش کرتے ہیں۔ ہر اپنے اردو گرد ہونے والے واقعات و حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں اور اس سے کبھی بھی روگردانی نہیں کرتے ہیں۔ ملکی حالات کے تناظر میں ایسے بہت سے معاملات ہیں جن پر ان کو لکھنے کی ضرورت ہے مگر وہ اس سب کو چھوڑ چھاڑ ایک فضول کی بحث میں پڑ گئے ہیں۔ اور ایک بندے کی طرف سے کافر کہنے پر اتنا بڑھک چکے ہیں کہ اپنی زندگی کا شب و روز اس کے جواب در جواب میں ضائع کر رہے ہیں۔
جب کوئی کسی پر کفر کا فتوی لگاتا ہے تو کفر واجب ہو جاتا ہے۔ اس پر جس نے کفر کیا ہو۔ یا اس پر جس نے کسی مسلمان پر کفر کا فتوی لگایا ہو۔
اوہ میرے محترم صاحبان خدارا مذہب کے معاملہ میں کچھ خیال کیا کرو۔ اور کچھ اعلی لکھو اور قوم کی خدمت کرو۔ اپنے اندر سے بلاگرز ہونے کا احساس ختم نہ ہونے دو۔