انسان جو صدیوں سے زندگی کے پُر خار راستوں پر چلتا ہوا اس مقام تک پہنچا ہے جس میں اس نے اپنی آسائشوں اور ضروریات کو پورا کرنے کے لئے خاطر خواہ کامیابی حاصل کی۔ اور ابھی بھی وہ اپنے ذہن کو وسعتیں دینے میں لگا ہوا
ہے۔ شا ید یہی زہنی صلاحیت چیز ہی ایسی ہے جو انسان کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے اشرف ا لمخلوقات بناتی ہے۔ کہ انسان ہر نئے دن نئی سوچ اور نئی ایجاد کے تگ و دو میں لگا رہتا ہے۔ اور اپنی منزل پانے کی کوشش میں سرگرداں رہتا
ہے۔
جیسا کہ قرآن کی سورۃ النجم کی آیت 39 میں بیان کیا گیا ہے۔ وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَى (ترجمہ)اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔
گزشتہ کچھ سالوں سے انسان اپنی قدرتی زہانت کو استعمال کرتے ہوئے مصنوعی زہانت کو پیدا کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ اور وہ اس سلسلہ میں کافی حد تک کام بھی کر چکا ہے جس میں سب سے پہلی کوشش سری (Siri) اور کورٹانا (Cortana) سے آغاز کیا اس میں کافی خامیاں تو موجود تھیں لیکن اس نے اس پر کام کرنے والوں کو ایک نئی جہت بخشی ۔ ان ایجادات نے کسی حد تک ہمیں لطف و تفریح تو فراہم کی لیکن فلموں کی طرح یہ ہماری روزمرہ زندگی میں اس طرح کارآمد نہ ہو سکیں جس طرح کی امید لگائی گئی۔ اس کے علاوہ آئی بی ایم کمپنی نے ایک مصنوعی زہانت کی ایجاد کی جس کا نام واٹسن (Watson) رکھا اس کو بھی مصنوعی زہانت کے طور پر بہت سا مواد اس کے اندر سمو کر اسے کھانا پکانا سے لے کر مالیات تک کی زہانت فراہم کرنے کی کوشش کی گئی۔ جبکہ واٹسن کینسر کی تشخیص میں انسانی ڈاکٹروں سے بہتر تھا۔
اس کے علاوہ مائیکروسافٹ اور گوگل نے انسانی چہرے کی پہچان اور انسانی انداز تکلم کی طرح کا نظام بھی بنایا جو انسانی خاصیتوں سے بھرپور تھا۔
آئی بی ایم کے واٹسن کے اور فیس بک کے ڈیزائن کردہ مصنوعی زہانت کے ہارڈوئیر کو ڈویلپرز کے لئے فراہم کیا جائے گا تاکہ مستقبل میں ہمیں ایسی بہت سی ایپلیکیشنز میسر آسکیں جن سے ہم انفرادی طور پر مستفید ہو سکیں۔اور معاشرے میں اس سے مثبت تبدیلی آ سکے۔
لیکن جب کوئی نئی چیز ایجاد ہوتی ہے تو اس پر نکتہ چینی کرنے والے اس کے منفی پہلوؤں پر بھی آواز اٹھاتے ہیں کہ اگر یہ مصنوعی زہانت مستقبل میں ہمارے فائدے کی بجائے ہمارے لئے وبال جان بن گئی تو پھر کیا ہوگا؟ پھر کون اس دنیا کی تباہی کا ذمہ دار ہو گا؟ ان کا کہنا ہے یہ مصنوعی زہانت اگر انسان کی زہانت سے آگے نکل گئی تو پھر کیا یہ نظام حیات معتدل رہ سکے گا؟
لیکن خوش قسمتی سے ابھی یہ مصنوعی زہانت اس مقام تک نہیں پہنچی کہ انسان کی قدرتی زہانت سے آگے نکل سکے۔ اور یہ زیادہ دور نہیں یہی کوئی دو عشروں تک مصنوعی زہانت ناممکنات کو ممکنات میں تبدیل کردے گی۔