پردیسی بھائیوں کی زندگی پر مبنی ایک حققت ھے آپ سے گزارش ھے ایک بار لازمی پڑھیں،
پیارے ابو جان اور امی جان!
مجھے آج ملک سے باہر چار سال ہوگئے اور میں اگلے ماہ اپنے وطن واپسی کا ارادہ کررہاہوں۔ میں نے اپنے ویزا کے لیے جو کچھ قرض لیا تھا وہ ادا ہوچکا ہے ۔کچھ اخراجات پچھلی چھٹی پر اور تحفے تحائف لینے میں ہوگئے تھے۔ اب میرے پاس کوئی بڑی رقم موجود نہیں ہے لیکن میری صحت ابھی ٹھیک ہے اور میں خود کو اس قابل سمجھتا ہوں کہ وطن جاکر کوئی اچھی سی نوکری کرسکوں اور گھر کے اخراجات چلا سکوں۔ یہ جگہ مجھے پسند نہیں ہیں، میں اپنے گھر رہنا چاہتا ہوں۔ اس سلسلے میں آپ کی کیا رائے ہے۔
آپ کا بیٹا
ندیم
پیارے بیٹے ۔ندیم!
تمھارا خط ملا اور ہمیں تمھاری چھٹی کے بارے میں پڑھ کر خوشی ہوئی۔ باقی تمھاری امی کہہ رہی تھیں کہ گھر کے حالات اچھے نہیں ہیں اور تم جانتے ہوں کہ برسات شروع ہونے والی ہے۔ یہ گھر رہنے کے قابل نہیں ہے۔ گھر چوں کہ کچی اینٹوں اور لکڑیوں سے بنا ہے اس لیے اس کی مرمت پر کافی خرچ آئے گا۔ ہم سوچ رہے ہیں کہ کنکریٹ اور سیمینٹ سے بنا ہوا چھوٹا سا گھر ہو تو بہت اچھا۔ تم جانتے ہو کہ یہاں کے حالات کیا ہیں، اگر تم یہاں آکر کام کرو گے تو اپنی محدود آمدنی سے گھرنہیں بنا سکتے۔ خیر گھر کا ذکر تو ویسے ہی کردیا، آگے جیسی تمھاری مرضی۔
تمھارے ابو اورامی
پیارے ابو جان اور امی جان!
میں حساب لگا رہا تھا آج مجھے پردیس میں آٹھ سال ہوچکے ہیں۔ اب میں اکثر تھکا تھکا رہتا ہوں، گھر کی بہت یاد آتی ہے اور اس ریگستان میں کوئی ساتھی نہیں ہے۔ میں سوچ رہا ہوں کہ اگلے ماہ ملازمت چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے وطن آجاؤں۔ آٹھ سال کے عرصے میں الحمد للہ ہمارا اپنا گھر بن چکا ہے اور جو ہمارے اوپر قرضے تھے وہ بھی ادا ہوچکے ہیں۔ اب پہلے والی ہمت تو نہیں رہی لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ کرکے، ٹیکسی چلا کے گھر کا خرچ چلا لوں گا۔ اس ریگستان سے میرا جی بھر گیا ہے۔ اب اپنے بچوں کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں۔ آپ کی کیا رائے ہے؟
آپ کا فرماں بردار بیٹا
ندیم
پیارے بیٹے ۔ندیم!
تمھارا خط ملا اور ہم پچھتا رہے ہیں اس وقت کو جب ہم نے تمھیں باہر جانے دیا، تم ہمارے لیے اپنے لڑکپن سے ہی کام کرنے لگ گئے۔ ایک چھوٹی سی بات کہنی تھی۔ تمھاری بہن ’’ زینب‘‘ اب بڑی ہوگئی ہے۔ اس کی عمر ۲۰ ؍برس سے اوپر ہوچکی ہے۔ اس کی شادی کے لیے کچھ سوچا، کوئی بچت کر رکھی ہے ۔بیٹا! ہماری تو اب یہی خواہش ہے کہ زینب کی جلدشادی ہوجائے اور ہم اطمینان سے مرسکیں۔ بیٹا ناراض مت ہونا۔ ہم تم پر کوئی بوجھ نہیں ڈالنا چاہتے ہیں۔
تمھاری امی اور ابو
پیارے ابو جان اور امی جان!
آج مجھے پردیس میں بارہ سال ہوگئے۔ یہاں کوئی اپنا نہیں ہے۔ دن رات گدھے کی طرح کام کرکے میں بیزارہوچکاہوں۔ کمہار کا گدھا جب دن بھر کام کرتا رہتا ہے تو رات کو گھر لا کر اس کا مالک اس کے آگے چارہ ڈال دیتا ہے اور اسے پانی بھی پلاتا ہے، پر میرے لیے تو وہ بھی کوئی نہیں کرتا۔ کھانا پینابھی مجھے خود ہی پکانا پڑتا ہے۔ بس اب میں ویزا ختم کروا کر واپس آنے کی سوچ رہا ہوں۔ پچھلے کچھ سالوں میں اللہ کی مدد سے ہم زندگی کی بیشتر آزمائشوں سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ زینب بہن کی شادی ہوچکی ہے اور اب وہ اپنے گھر میں خوش ہے۔ اس کے سسرال والوں کو خوش رکھنے کے لیے میں اکثر تحفے تحائف بھی بھیجتا رہتا ہوں۔ اللہ کے کرم سے آپ کو میں نے حج بھی کروادیا اور کوئی قرض بھی باقی نہیں ہے۔ بس کچھ بیمار رہنے لگا ہوں، بلڈپریشر بڑھا ہوا ہے اور شوگر کا مرض بھی لاحق ہوگیا ہے، لیکن جب گھر آؤں گا، گھر کے پرسکون ماحول میں رہوں گا اور گھر کا کھانا کھاؤں گا تو ان شاء اللہ میں ٹھیک ہوجاؤں گے اور ویسے بھی اگر یہاں مزید رہا تو میری تنخواہ تو علاج و معالجہ میں چلی جائے گی ۔ اب بھی مجھ میں اتنی سکت ہے کہ میں پرائیویٹ گاڑی چلا لوں گا۔
آپ کا بیٹا
ندیم
پیارے بیٹے۔ندیم!
بیٹا ہم تمھارا خط پڑھ کر کافی دیر روتے رہے۔ اب تم پردیس مت رہنا لیکن تمھاری بیوی زہرہ کو کچھ کہنا تھا، اس کی بات بھی سن لو۔
میرے پیارے تاجدار!
میں نے کبھی آپ کو کسی کام کے لیے مجبور نہیں کیا اور کسی چیز کے لیے کبھی ضد نہیں کی لیکن اب مجبوری میں کچھ کہنا پڑ رہا ہے۔ آپ کے بھائی نسیم کی شادی کے بعد آپ کے والدین تو مکمل طور پر ہمیں بھول چکے ہیں،ان کا تمام پیار نئی نویلی دلہن کے لیے ہے، میں نے تو یہ بھی سنا ہے کہ وہ آبائی گھر نسیم کو دینے کا سوچ رہے ہیں۔ ذرا سوچئے اگر آپ یہاں آگئے اور مستقل میں کبھی اس بات پر جھگڑا ہوگیا تو ہم اپنے چھوٹے چھوٹے بچے لے کر کہاں جائیں گے۔ اپنا گھر ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ آپ کو پتہ ہے سمینٹ اور دیگر چیزوں کی قیمتیں کتنی مہنگی ہوچکی ہیں؟ مزدوروں کی دہاڑی آسمان سے باتیں کررہی ہیں، یہاں رہ کر ہم کبھی بھی اپنا گھر نہیں بناسکیں گے۔ لیکن میں آپ کو پریشان نہیں کرنا چاہتی، آپ خود سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں۔
آپ کی شریک حیات
زہرہ
میری شریک حیات!
پردیس میں سولہواں سال چل رہا ہے ۔ اللہ کے فضل سے ہمارا نیا علاحدہ گھر مکمل ہوچکا ہے اور گھر میں آج کے دور کی تمام آسائش کی چیزیں بھی موجود ہیں۔ تمام قرضوں کے بوجھ سے میری کمر بھی سیدھی ہوچکی ہے، اب میرے پاس ریٹائر منٹ فنڈ کے سوا کچھ نہیں بچا، میری نوکری کی مدت بھی اب ختم ہوگئی ہے۔اس ماہ کے اختتام پر کمپنی میرا ریٹائر منٹ فنڈ جو پچاس ہزار درہم ہے ،جاری کردے گی۔ اتنے لمبے عرصے اپنے گھر والوں سے دور رہنے کے بعد میں بھول ہی گیا ہوں کہ گھر میں رہنا کیسا ہوتا ہے۔ بہت سے عزیز دنیا سے گزر چکے ہیں اور بہت سوں کی شکل تک مجھے یاد نہیں ہے۔ لیکن میں مطمئن ہوں کہ اللہ کے کرم سے میں گھر والوں کو اچھی زندگی مہیا کرنے میں کامیاب ہوسکا۔ اب طبیعت بھی اچھی نہیں رہتی۔ ہر ہفتہ ڈاکٹر کے پاس جانا پڑتا ہے۔ اب میں واپس آکر اپنوں میں رہوں گا۔
تمھارا شریک زندگی
ندیم
میرے سرتاج!
آپ کے آنے کا سن کر میں بہت خوش ہوں۔ پردیس میں کچھ لمبا ہی قیام ہوگیا لیکن یہ ایک اچھی خبر ہے۔ مجھے تو آپ کے آنے پر کوئی اعتراض نہیں لیکن بڑا بیٹا اختر ضد کررہا ہے کہ وہ انجینئرنگ میں داخلہ لے گا۔میرٹ تو اس کا اتنا نہیں ہے کہ داخلہ ہو جائے،مگر سیلف فائنانس سے داخلہ مل سکتا ہے۔ پہلے سال چار لاکھ فیس ہے اور اگلے تین سال میں ہر سال تین تین لاکھ روپیے اور ہم نے یہ پتہ کرلیا ہے کہ یونیورسٹی کی انتظامیہ انسٹالمنٹ میں فیس لنے پر راضی ہوگئی ہے۔اس ماہ کے آخر تک فیس کی پہلی قسط جمع کرنا ہوگی۔ آپ کے جواب کی منتظر ۔
آپ کی بیوی
زہرہ
اس نے بیٹے کی پڑھائی کے لیے ساری رقم بھیج دی۔ بیٹی کی شادی کے لیے جہیز اور دیگر اخراجات بھیجے۔ مگر اب بیس سال ہوچکے تھے۔ وہ خود کو ائرپورٹ کی طرف گھسیٹ رہا تھا۔ شوگر، بلڈ پریشر، السر، گردے و کمر کا درد اور جھریوں والا سیاہ چہرہ اس کی کمائی تھی۔ اسے اچانک اپنی جیب میں کسی چیز کی موجودگی کا احساس ہوا۔ اس نے جیب میں ہاتھ ڈال کر دیکھا تو وہ ایک بند خط تھا۔یہ وہ پہلا خط تھا جو اس نے اپنی پردیس کی زندگی میں نہیں کھولا۔
ماخذ: فیس بک