دن ہفتوں میں اور ہفتے مہینوں میں بدلتے ہیں پھر ہی کچھ تبدیلی آتی ہے۔ کبھی تبدیلی مثبت ہوتی ہے تو کبھی منفی۔۔۔ لیکن پاکستان میں ان بدلتے دنوں ، ہفتوں اور مہینوں بلکہ سالوں میں تبدیلی نیوٹرل یعنی “جتھوں دی کھوتی اوتھے آن کھلوتی ” والی بھی ہوتی ہے۔
جن لوگوں نے میری پچھلی بلاگ پوسٹ معاشرتی برائیاں اور اردو بلاگرز کی ذمہ داریاں پڑھی ہو گی انہیں معلوم ہے کہ بندہ نے اس معاشرے میں ایک مثبت شہری بننے کی ٹھانتے ہوئے۔ اپنے علاقے میں ہونے والے ترقیاتی کاموں کے معیار پر سمجھوتہ نہ کرتے ہوئے اس کے خلاف قلمی و عملی جہاد شروع کیا ہے۔ اب سے جہاد میں یا تو شہید ہوں گے یا پھر ۔۔۔۔۔
گزشتہ پوسٹ سے اقتباس:
ہمیں انقلاب لانا ہے تو ہمیں اپنے محکموں میں چھپی کالی بھیڑوں کی گردن تک پہنچنا ہو گا لیکن قانونی طریقہ سے ۔ مجھے معلوم ہے کہ درج بالا درخواست دینے کے بعد اس کے کوئی خاظر خواہ نتائج نہیں آئیں گے لیکن اگر اسی طرح باقی لوگ ایسے منصوبوں پر ہونے والی کرپشن پر آواز اٹھائیں گے تو وہ ایک دو بندہ کے دباؤ سے بڑھ کر دباؤ ہو گا تو سسٹم خود بخود درستگی کی طرف جائے گا۔
بندہ نے بھی محکمہ اینٹی کرپشن میں واسا افسران کے خلاف ایک درخواست دی تھی جس کا ڈائری نمبر 9671 بتاریخ 27 دسمبر 2014 تھا۔
میں ڈائریکٹر اینٹی کرپشن جناب سہیل انور چودھری صاحب کو ملا اور انہیں اپنی درخواست پیش کی جس میں موجود نکات کو پڑھکر انہوں نے کہا آپ کے پاس ثبوت ہیں تو میں نے موقع کی تصاویر دکھا دیں۔ جس پر انہوں نے سپرنٹنڈنٹ کو بلا کر میری درخواست پر فوری کاروائی کرتے ہوئے انکوائری کا حکم دے دیا۔
اللہ اللہ کر کے 26 جنوری 2015کو تقریبآ ایک ماہ بعد معلوم ہوا کہ میری درخواست پر انکوائری شروع کرنے کے لئے ڈپٹی ڈائریکٹر اینٹی کرپشن کو حکم جاری کر دیا گیا۔
مورخہ 28 جنوری 2015 کو مجھے موبائل نمبر 03426887909 سے دوپہر 15:09 پر 1 منٹ اور 21 سیکنڈ کسی اوورسئیر کی کال آئی کہ جناب آپ کو کس چیز کی شکایت ہے اور کیوں درخواست دی ہے۔ میں نے دو ٹوک جواب دے دیا آپ کو کام ٹھیک لگتا ہے تو جا کر اینٹی کرپش والوں کو ثابت کر دیں۔
درج بالا کال ختم ہوتے ہی موبائل نمبر 03008742528 سے دوپہر 15:12 پر 2 منٹ 24 سیکنڈز کی کال موصول ہوئی جس میں ایک علامہ صاحب کچھ یوں مخاطب ہوئے ۔۔۔۔ اسلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ محترم کیسے مزاج ہیں ۔ آپ کا محلے دار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمارے بھائی لاہور والوں نے یہ کام کیا ہےآپ کیوں شکایت کر رہے ہیں۔ ملاقات کرنا چاہ رہے ہیں۔ جس پر میں نے اسلام آباد میں موجودگی کا بہانہ بنا کر ٹرخا دیا۔
مورخہ 9 فروری 2015 کو پی ٹی سی ایل نمبر 0559200898 سے امجد اعوان صاحب کی کال موصول ہوئی کہ آپ کو ڈپٹی ڈائریکٹر اینٹی کرپشن کے دفتر کل یعنی مورخہ 10 فروری 2015 کو پیش ہونا ہے جس کے لئے دوپہر 14:30 کا وقت مقرر ہوا۔
مورخہ 10 فروری 2015 کو میں ڈپٹی ڈائریکٹر اینٹی کرپش کے دفتر میں 14:40 پر پہنچ گیا جہاں پر واسا اہلکاران ایس ڈی او اور اوورسئیر پیش ہوئے اور انہوں نے اپنا موقف پیش کیا۔ لیکن جزوی ریکارڈ کی وجہ سے انہیں 13 فروری 2015 تک مکمل ریکارڈ پیش کرنے کا حکم جاری کرتے ہوئے حاضری لگا کر چھٹی دے دی گئی۔
مورخہ 20 فروری 2015 کو 18:03 پر ایک موبائل نمبر 03218279665سے کال موصول ہوئی جس کا دورانیہ 4 منٹ اور 59 سیکنڈ تھا جس میں بابر بٹ نامی ایکسپریس نیوز پیپر رپورٹر نے درخواست کے متعلق موقف جاننا چاہا کہ دوسری پارٹی تو آپ کو بلیک میلر کہتی ہے۔ اور میں نے اپنا موقف پیش کر دیا۔
جس کے بعد آج روزنامہ دنیا مورخہ 21 فروری 2015 ، گوجرانوالہ ایڈیشن میں درج ذیل خبر شائع ہوئی ہے۔
ایکسپریس نیوز گوجرانوالہ ایڈیشن کے صفحہ دو پر اسی خبر کو کچھ اس طرح سے شائع کیا گیا ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ اس انکوائری پر جو پیش رفت ہو گی آپ لوگوں کے گوش گزار کرتا رہوں گا۔ آپ بھی اپنے حقوق کے لئے اٹھیں ۔ معاشرتی برائیوں کے خلاف جہاد کریں۔
اللہ آپ کے لئے آسانیاں پیدا کرے اور آپ کو آسانیاں بانٹنے کی توفیق عطا کرے ۔ آمین