پیپلز پارٹی ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔4 دہائیوں کی سیاسی عمر کے باوجود بھی اپنے کھوکھلے نعروں کے سوا اور کرپشن کہانیوں کے سوا کچھ نہیں دے سکی عوام کو
مسلم لیگ ن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس پارٹی کا نا تو کوئی واضح ایجنڈہ ہے اور نہ ہی کوئی واضح پالیسی و نعرہ ہے۔ عوام نے اس بار بجلی کی بہتری کے لئے ووٹ دیا اس میں بھی ناکام۔ اسے بس اپنے خاندان کو حکومت میں رکھنے کی پالیسی کا معلوم ہے۔
جماعت اسلامی ۔۔۔۔۔۔۔ اس پارٹی کی سیاسی عمر بھی کافی ہو چکی ہے۔ لیکن اس پارٹی نے سوائے دھرنوں اور ملین مارچوں کے کچھ بھی نمایاں کام نہیں کئے صرف مشرف میں دور میں مشرف کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کی قیادت با اصول ، دیانت دار اور مخلص ہے۔
پی ٹی آئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 17 سالہ سیاسی زندگی کے بعد اسے کچھ قومی و صوبائی سیٹیں ملیں اور کچھ دھاندلی کی نظر ہو گئیں۔ لیکن اس پارٹی کو خاموش حمایت کافی ملی۔ اس کی ناکامی کی وجہ وہی پرانے چہرے اور عمر رسیدہ سیاسی رہنماوں کو پارٹی میں لینا ہے جو آج اس پارٹی کو ڈبونے والے ہیں۔
پاکستان عوامی تحریک ۔۔۔۔۔۔۔ اس کی سیاسی ابتدا بھی تقریباً ۳ دہائیوں پر محیط ہے لیکن فعال کردار 2013 کے انتخابات سے پہلے ہوا۔ اس نے ملک کے تمام نظام کو آئین کے پہلے 40 نکات کی روشنی میں بدلنے کو ترجیح دیا۔ اگر تو اس پارٹی کے ایجنڈے کو دیکھیں تو بہت اچھا ہے۔ لیکن اس پارٹی کے پاس آئینی طور پر ان اصلاحات کو عملی جامہ پہنانے کو اسمبلی میں نشستیں نہیں ہیں اس مقصد کے لئے مارشل لا ہی ان کی مدد کر سکتا ہے۔
ایم کیو ایم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 80 کی دہائی سے موجود اس سیاسی پارٹی نے بھی چڑھتے سور ج کو سلام کیا ہے اور حکومت میں رہنے کو ہی اپنی پالیسی بنایا ہے۔ اس میں سیاسی قیادت متوسط طبقہ سے ہے۔ یہ پارٹی اگر انقلابی سوچ لائے اور کراچی کی حد تک معاملات درست کر لے تو ملک گیر توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کا ایک ہی مقصد نظر آتا ہے ڈوبتی حکومتوں کو ذاتی مفاد کے لئے سہارا دینا۔