چھٹی کی تاریخ کااغلاط نامہ
محترم !
میں ایک عام پاکستانی ہوں، اور  ایک اہم مسئلہ کی جانب توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں۔جو کہ قوم کے نونہالوں کے تعلیمی نصاب میں موجودحقائق کی اغلاط سے متعلق ہے۔ جو بچو ں کے اذہان پر ابطالی نقوش مرتب کرسکتے ہیں۔  میرے پاس تاریخ کے مضمون کی کوئی باقاعدہ سند  نہیں ہے اور نہ ہی کہیں باقاعدہ اسکی شاگردی اختیار کی۔ مجھے تاریخ  سے محبت ہے اور اِس اُلفت کی عملی صورت،  یہ تحریرہے۔
کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ تاریخ، ماضی کے تجربات اور موجود حالات کی مدد سے انسانی مستقبل کی رہنمائی کرتی ہے۔حتی کہ ممالک کی پالیسیاں اور سیاسی حکمت عملیاں بھی تاریخ کی مدد سے مرتب ہوتی رہی ہے۔ مقدمہ ابن خلدون از عبد الرحمن، کتاب الامیر (دی پرنس) از میکاولی تاریخی تجربات کا ایک  واضح نچوڑ ہیں۔
حکومت پنجاب کی تعلیمی پالیسی میں”تاریخ“کے مضمون کا ،دہائیوں بعد اضافہ قابل ستائش عمل ہے۔مگر مجھے شدید ذہنی و قلبی دُکھ پہنچا، جب چھٹی کی تاریخ میرے زیر مطالعہ آئی۔ اس کے چند فیکٹ اینڈ فیگرز ناقابل معاف اغلاط پر مشتمل ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ یہ نااہل افراد کی مرتب کردہ تاریخ کا عکس ہے۔ کہیں سن غلط ہے،تو کسی جگہ مصنفین  نے بیٹی کو بہن یا بھائی کو چچا کا رشتہ دیکر اُلجھا دیا ہے، حد درجہ کی انتہا صفحہ 39، باب چہارم پر موجود “جلال الدین فیروز خلجی کی تصویر” کو دیکھیے۔جو انٹرنیٹ سے اُٹھائی گئی مگر نقل بھی عقل سے نہ ہوسکی۔اور جلال الدین اکبر کی تصویر لگا دی گئی۔بات یہاں تک ختم نہیں ہوتی کہیں کوئی علاقہ سلطنت کا حصہ نہیں،جبکہ کتاب میں شامل ِسلطنت درج ہے، شکست کو فتح کے الفاظ میں ڈھالا گیا ہے، ایک سکالر کادربار غزنوی میں مجھے تو کہیں وجود نہ ملا مگر وُہ تو درباریوں میں شامل ہے۔ یہ تاریخ برصغیر پاک وہند ہے، جہاں سے نصاب میں تاریخ کی ابتداء کی جارہی ہے۔
میں بچپن میں سنتا تھا، تاریخ کسی کو معاف نہیں کرتی، مگر کچھ روز سے مجھ پر عیاں ہوا کہ جو تحریر ہو جائے وُہ تاریخ ہے۔ میں برملا کہتا ہوں، تاریخ  بہت سفاک ہے، جو کسی کو نہیں بخشتی۔دُنیا میں ہر روز لاوا اُبل رہا ہے۔تاریخ دان ، ٹھنڈی چٹانوں کو کرید کر ذخائر نکال رہا ہے۔ میرا آج کا تعصب کل کریدا جائے گا۔ تبھی ابن خلدون نے کہا تھا، غیر جانبدار ہو کر تاریخ کو دیکھو۔
میں نے خط کے ساتھ اغلاط بمع درستگی اور حوالہ جاتی کتب درج کردی ہیں۔  جہاں مجھے کچھ نظریاتی بات تفصیل طلب محسوس ہوئی، اُس کو تجویز میں درج کردیا۔ چاہے اُن کو آپ قبول فرمائیے یا ردّ کیجیے، وُہ ماہرین تاریخ کی صوابدید۔ممکن ہے، انسان ہوں، کہیں میں بھی غلطی کھاتا ہوں۔ کیونکہ انسان کی نظر دھوکہ کھاتی  ہےاور کبھی کبھی سمجھ بھی جھول کھاجاتی ہے۔
میری تجویز ہے کہ جن اغلاط کی میں نے نشاندہی کی، کسی قابل تاریخ دان سے اُس کی تصدیق کروائیں۔اگر میری بات میں صداقت ملے تو اس کی درستگی کے لیے بلا تاخیر قدم اٹھائیں۔ کیونکہ بچوں نے جو تواریخ یاد کرلیں، وُہ دوبارہ باآسانی درست نہ ہوسکے گی۔  اُس کے لیے تمام سکولوں میں ایک سرکلر بھجوائیں، تاکہ بچوں کو درست پڑھایا جاسکے۔ مزید سرکاری سطح پر اخبارات اور میڈیا کے ذریعے بھی اِن اغلاط کی نشاندہی کرکے پرائیویٹ اور سرکاری سکولوں کے اُساتذہ کی رہنمائی کر دی جائے۔
اس سلسلہ میں بطور پاکستانی، اپنی بساط کے مطابق تگ ودو میں لگا ہوں۔ اُمید ہے، آپ میری رائے پر سنجیدگی سے غور کریں گے۔
اب ایک پاکستانی کے طور پر سوال کررہا ہوں؟ اشاعتی ادارہ کے مصنفین سے تو یہ کوتاہی سرزد ہوئی، مگر اُس مجلس کی سرکاری و قومی ذمہ داریاں کہا ںگئیں، جو ملٹی پل کتابوں کی ، نظر ثانی کرتی ہے، اور کتاب کو مفت کتاب کے اجراء میں شامل رکھتی ہے؟ جبکہ  میرے علم کے مطابق پچیس ہزار روپے صرف ان ملٹی پل کتابوں پر نظر ثانی فیس ہوتی ہے۔ جس کے تحت مواد کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ چاہے کتاب منظور ہو یا نامنظور۔
ملٹی پل کتابوں سے متعلقہ ہر پرائیوٹ ادارہ  صفحہ ثانی کی ابتداء کاپی رائٹ ایکٹ سےکرتا ہے۔  کاپی رائٹ کیا تخلیق کا ہوتا ہے یانقل کا….؟ان کتب میں بیشتر تصاویر انٹرنیٹ سے اٹھا لی جاتی ہے۔ ان کا کاپی رائٹ کیا بنتا ہے؟
ہمارے تمام صاحب مقتدر حلقے شعور اُجاگر کرنے کی بات کرتے ہیں، پتہ نہیں شعور یا لاشعور میں ہم کس شعور کی تعلیم دے رہے ہیں۔ شائید روح کی تربیت کرنے والوں کی روحیں پرواز کرچکی…..
والسلام
                   ایک پاکستانی
فرخ نور
چھٹی کی تاریخ کااغلاط نامہ
غلطی یا ابہام والے لفظ یا جملہ کو انڈر لائن سے واضح کیا گیا ہے۔
مواد میں غلطی
نمبر 1 نشاندہی :صفحہ 20، پیراگراف 1، سطر 2
غلطی: موریا حکومت 185 سال قائم رہی
درستگی: موریا حکومت 137 سال قائم رہی
 درستگی کا حوالہ: اسی ہی صفحہ کے بائیں جانب ایک نقشہ دیا گیا ہے جس کے اوپر موریا عہد کا عرصہ بھی تحریر ہے۔ جو کہ 321 ق م تا 185 ق م ہے۔ یوں آپ خود سالوں کو شمار کریں تو 137 برس ہی بنتے ہیں۔ نیز آپ کسی بھی موریا عہد کی کتاب سے اس عرصہ کی تصدیق کر سکتے ہیں۔کیونکہ میرے پاس  اس قدیم عہد کی حوالہ جاتی کتب بہت پرانی ہے، جو اب مارکیٹ میں دستیاب نہیں۔
حوالہ: اس خاندان کے بادشاہوں نے ہندوستان کے بیشتر حصہ پر 137 سال حکومت کی۔ (تاریخ ہندوستان ازپروفیسر غلام حسین ایم اے، سن اشاعت 1940ء، غالباً یہ کتاب لائیبریری میں بھی نہ مل سکے، صفحہ76، سطر1)
نمبر 2 نشاندہی : صفحہ 21، پیراگراف 5، سطر 5
غلطی: اس کے (اَشوک اعظم) انتقال کے بعد تخت نشینی کے لیے اس کے بیٹوں میں جنگ شروع ہوگئی۔
درستگی: اس کے (اَشوک اعظم) انتقال کے بعد تخت نشینی کے لیے اس کے جانشینوں میں جنگ شروع ہوگئی۔
وجہ درستگی: مناسب ہوگا کہ لفظ “جانشینوں” لکھا جائے۔ کیونکہ یہ اقتدار کی جنگ، اُس کے پوتوں  دَسرتھ اور سمرتی کے مابین تھی۔ دسرتھ 20 برس کی عمر میں دادا اَشوک کے بعد وزیر کی مدد سے بادشاہ بنا۔ اَشوک کی وفات پر اُس کا بیٹا اور وارث کونالہKunala تھا جوکہ دَسرتھ کا سوتیلا چچا تھا مگر نابینا تھا۔ دسرتھ نے 8 برس حکومت کی۔ دسرتھ کے انتقال کے بعد کونالہ کا بیٹا سمپرتی 9 سال تک بادشاہ رہا۔
نمبر 3 نشاندہی : صفحہ 23، پیراگراف 2، سطر 2
غلطی: سگندھ گُپت حکمران بنا
درستگی: سکندا گُپت حکمران بنا۔
وجہ درستگی: انگریزی میں یوں لکھا جاتا ہے۔ Skandagupta۔ اس کا عہد حکومت 455ء تا 480 ء تک تھا۔ آپ ایک مرتبہ اس کی تحقیق کروا لیجیے۔
حوالہ: سکند گپت اسی خاندان کا آخری تاجدار ہے، جو وسط ایشیا سے آنے والی ایک نئی قوم “ہون” کے سیلاب کا مقابلہ نہ کرسکا۔ (عہد اسلامی کا ہندوستان از سید ریاست علی ندوی، صفحہ 23، پیراگراف:3، سطر:1،   پبلشر: تخلیقات)
کمار گپت کا بیٹا سکند گپت 455ء تخت نشین ہؤا۔ (تاریخ ہندوستان ازپروفیسر غلام حسین ایم اے، سن اشاعت 1940ء، غالباً یہ کتاب لائیبریری میں بھی نہ مل سکے، صفحہ115، پیراگراف 2، سطر1)
نمبر 4 نشاندہی : صفحہ 23، پیراگراف 4، سطر 4
غلطی: ہرش نے دکن پر حملہ کرکے اُسے اپنی سلطنت میں شامل کرلیا۔
درستگی: ہرش نے دکن پر حملہ کیا مگر ناکام رہا۔
وجہ درستگی: ہرش نے دکن پر حملہ کیا مگر پَلک سین سے شکست کھائی۔ مزید کشمیر اور پنجاب کے سوا تمام شمالی ہندوستان فتح کرلیا۔ آپ ایک مرتبہ اس کی تحقیق کروا لیجیے۔
حوالہ: مگر چالکیہ خاندان کے حکمران پل کیسن ثانی نے نربدا ندی کے کنارے اس (ہرش کے)سیلاب کو روک دیا (عہد اسلامی کا ہندوستان از سید ریاست علی ندوی، صفحہ 24،پیراگراف:1، سطر:4،  پبلشر: تخلیقات)
اُس نے دکن کو بھی فتح کرنے کی کوشش کی مگر چالوکیہ خاندان کے بادشاہ پلک سین سے شکست کھائی۔ اور کوہ وندھیا چل مہاراجہ ہرش کی سلطنت اور دکن کی حد فاصل بن گیا۔۔ (تاریخ ہندوستان ازپروفیسر غلام حسین ایم اے، سن اشاعت 1940ء،  صفحہ117، پیراگراف 3، سطر7)
نمبر 5 نشاندہی : صفحہ 28، پیراگراف 2، سطر 4
غلطی: یہاں (ملتان)کا حکمران، راجا داہر کے چچا کا بیٹا تھا
درستگی: یہاں کا حکمران، راجا داہر کے بھائی چندر کا لڑکا تھا اور بہت مضبوط راجا تھا۔
حوالہ:  عہد سلاطین از شیخ محمد رفیق، پبلشر: سٹینڈرڈ بک ہاؤس،  صفحہ28، موضوع: ملتان کی تسخیر، سطر 2۔
نمبر 6 نشاندہی :صفحہ 29، پیراگراف 3، سطر4
غلطی: جن میں فردوسی، حکیم بو علی سینا اور البیرونی جیسے باکمال لوگ بھی شامل تھے۔
درستگی: جن میں فردوسی،عتبی، عنصری، فرخی، دقیقی، منوچہری، عسجدی اور البیرونی جیسے باکمال لوگ بھی شامل تھے۔
درستگی کا حوالہ: فارابی اور بو علی سینا جیسے اسکالر بھی تھے، جنہوں نے غزنی آنے سے معذرت کرلی۔ (سلاطین دہلی از شیخ محمد رفیق، پبلشر: سٹینڈرڈ بک ہاؤس، صفحہ نمبر 69، پیراگراف2، سطر3)
History of Muslim Rule کے مصنف ایشوری پرشاد نے صفحہ 60 تا 65 میں البیرونی، فردوسی، فرخی، بیقہی کا ذکر کیا مگر کہیں بھی بو علی سینا کا تذکرہ نہیں ملتا۔
 نمبر 7 نشاندہی :صفحہ30، پیراگراف 2، سطر2
غلطی: محمد غوری اپنے بھائی کی وفات کے بعد 1173ء میں تخت نشین ہوا۔
درستگی: محمد غوری اپنے بھائی کی وفات کے بعد 1203ء میں تخت نشین ہوا۔
درستگی کا حوالہ: محمد غوری اپنے علاقہ غزنی میں خود مختار حکمران 1173ء سے تھا۔ مگر محمد بن سام نےاپنے بڑے بھائی غیاث الدین غوری کو سلطان کا درجہ دے رکھا تھا۔اور اُس کی بالادستی قبول کرتے تھے۔ 1203ء میں  بڑے بھائی کی وفات کے بعد سلطان شہاب الدین غوری کا لقب اختیار کیا ۔
سلطان غیاث الدین غوری فوت ہوگیا اور شہاب الدین غوری نے غزنی پہنچ کراُسکے  سوگ کی رسومات ادا کیں اور 1203ء میں سلطان کا منصب سنبھالا۔ (سلاطین دہلی از شیخ محمد رفیق، پبلشر: سٹینڈرڈ بک ہاؤس، صفحہ نمبر86)
طبقات ناصری از منہاج سراج الدین، پبلشر: اردو سائنس بورڈ
 نمبر 8 نشاندہی :صفحہ31، پیراگراف 4، سطر4
غلطی: وہ پہلا مسلمان بادشاہ تھا جس نے دہلی کے بجائے لاہور کو دارالسلطنت بنایا۔
درستگی: وہ پہلا مسلمان بادشاہ تھا جس نے دہلی کو دارالسلطنت بنایا۔
درستگی کا حوالہ: لاہور میں تاجپوشی ہوئی اور دہلی کو دارالحکومت قرار دے کر ایک آزاد حکمران کی حیثیت اختیار کی۔۔ (سلاطین دہلی از شیخ محمد رفیق، پبلشر: سٹینڈرڈ بک ہاؤس، صفحہ نمبر98)
سلطان ایبک کے لقب سے لاہور میں اس کی تخت نشینی کی رسم انجام پائی۔ وُہ اپنا پایہ تخت لاہور سےہندوستان کے قلب اور اُس کی پرانی راجدھانی میں لے آیا اور وہی سلاطین دہلی میں سے پہلا سلطان قرار پایا۔(عہد اسلامی کا ہندوستان از سید ریاست علی ندوی، صفحہ 162-161،پیراگراف:2، سطر:4،  پبلشر: تخلیقات)
 نمبر 9 نشاندہی :صفحہ31، پیراگراف 5، سطر2
غلطی: اُس (قطب الدین ایبک) نے سندھ اور ملتان کے حکمران ناصر الدین قباچہ سے اپنی بہن کی شادی کردی۔
درستگی: اُس (قطب الدین ایبک) نے سندھ اور ملتان کے حکمران ناصر الدین قباچہ سے اپنی بیٹی کی شادی کردی۔
درستگی کا حوالہ: قباچہ ایبک کا داماد تھا(سلاطین دہلی از شیخ محمد رفیق، پبلشر: سٹینڈرڈ بک ہاؤس، صفحہ نمبر99، موضوع: رشتہ ناتہ کی سیاست)
ناصر الدین کے نکاح میں قطب الدین ایبک کی یکے بعد دیگرے دو بیٹیاں آئیں۔ بڑی بیٹی سے علاؤ الدین بہرام شاہ تھا۔ خوش رو مگر بدکردار تھا۔ ایبک کی تین بیٹیاں تھیں۔ تیسری التتمش کے عقد میں آئی (طبقات ناصری از الدین جوزجانی (منہاج سراج الدین)، تلخیص و ترجمہ ممتاز لیاقت، پبلشر:سنگ میل، صفحہ 173)
اس پر سلطان قطب الدین کا داماد، ملک ناصر الدین قباچہ سند کی طرف چل دیا۔ (تاریخ مبارک شاہی از یحیی بن سرہندی، مترجم: ڈاکٹر آفتاب اصغر، پبلشر: اردو سائنس بورڈ، صفحہ 79) سلطان قطب الدینؒ کی تین بیٹیاں تھیں، ان میں سے دو بیٹیاں یکے بعددیگرے ملک ناصر الدین  قباچہ کے حبالہ عقد میں آئیں اور ایک بیٹی کا نکاح شمس الدین التمش سے ہوا۔ (تاریخ مبارک شاہی از یحیی بن سرہندی، مترجم: ڈاکٹر آفتاب اصغر، پبلشر: اردو سائنس بورڈ، صفحہ 79، فٹ نوٹ 1)
نمبر 10 نشاندہی : صفحہ 32، پیراگراف 2، سطر2
غلطی: اُس (سلطان قطب الدین ایبک) نےبہت سی عمارات بنوائیں لیکن دہلی میں قوت الاسلام، قطب مینار اور اڑھائی دن کا جھونپڑا، خاص اہمیت کے حامل ہیں۔
درستگی: اُس (سلطان قطب الدین ایبک) نےبہت سی عمارات بنوائیں لیکن دہلی میں قوت الاسلام اور قطب مینار  خاص اہمیت کے حامل ہیں۔
درستگی کا حوالہ: اڑھائی دن کا جھونپڑاالتتمش نے بنوایا۔ قوت الاسلام اور قطب مینار کی توسیع کروائی۔ (عہد سلاطین از شیخ محمد رفیق، پبلشر: سٹینڈرڈ بک ہاؤس،  صفحہ321)
اُس (التمش) نے قوت الاسلام اور قطب مینار کی توسیع کروائی اور اجمیر میں اڑھائی دن کا جھونپٹرا اور دوسری عمارتیں بنوائیں۔ (بحوالہ ایس کے بینر جی لکھنؤ یونیورسٹی، کتاب: ہندوستان کے عہد کی ایک ایک جھلک از سید صباح الدین عبد الرحمن، پبلشر: دارالمصنفین اعظم گڑھ، صفحہ 437)
نمبر1 1 نشاندہی : صفحہ 32، پیراگراف 2، سطر3
غلطی: اُس (قطب الدین ایبک)نے قطب مینار خواجہ قطب الدین کاکی کی یاد میں بنوایا تھا۔
درستگی: قطب مینار کے قریب خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ کا مزار ہے۔ اس وجہ سے اس کو قطب مینار کہتے ہیں۔
درستگی کا حوالہ: کیونکہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ، التمش اور خواجہ معین الدین چشتیؒ تینوں کا سن وفات تقریباً 1235ء  ہے۔ جبکہ قطب الدین ایبک نے 1210ء میں وفات پائی۔ تو قطب الدین ایبک کس طرح اُن کی یاد میں مینار بنوا سکتا تھا؟ یاد کا تعلق تو واقع ہوجانے کے بعد ہوتا ہے۔ یا قریبی قلبی تعلق کے سبب ہوتا ہے۔ اور قطب الدین ایبک کا قلبی لگاؤ کاکی صاحب سے نہ تھا۔ وہ التتمش یا ناصر الدین قباچہ کا تھا۔یہاں لفظ “یاد ” درست نہیں۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ قطب مینار عہد غوری میں شروع ہوکر عہدالتتمش میں اس کی پانچ منازل مکمل ہوئیں۔
حوالہ: قطب الدین بختیار کاکی کا مزار دہلی میں ہے اور قطب مینار کا نام ان ہی کے اسم گرامی پر رکھا گیا ہے۔ (ہندوستان کے عہد وسطی کی ایک ایک جھلک جھلک از سید صباح الدین عبد الرحمن ، باب:ہندوستان کے اصلی مبلغین اسلام از ڈاکٹر تارا چند ایم اے، ڈی فل، پبلشر: دارالمصنفین اعظم گڑھ، صفحہ 376)
اس مینار کے نزدیک خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کا مزار ہے۔ اسی لئے اس کو قطب مینار بھی کہتے ہیں۔ (تاریخ ہندوستان ازپروفیسر غلام حسین ایم اے، سن اشاعت 1940ء،  صفحہ180، پیراگراف 2، سطر3)
نمبر 12 نشاندہی :صفحہ32، پیراگراف 3، سطر4
غلطی: سلطان نے اُسے(التتمش کو) گوالیار کا حاکم مقرر کیا۔
درستگی: سلطان نے اُسے بدایوں کا حاکم مقرر کیا۔
درستگی کا حوالہ: التمش بدایوں کا حاکم تھا (طبقات ناصری صفحہ 180)
 ایلتمش کا دہلی پر قبضہ جو کہ اُس وقت بدایوں کا حاکم تھا۔ (تاریخ مبارک شاہی از یحیی بن سرہندی، مترجم: ڈاکٹرآفتاب اصغر، صفحہ 79)
التمش پہلے امیر شکار کے عہدہ پر مامور ہوا۔ گوالیار کی تسخیر پر وہاں کا نگرانِ قلعہ مقرر ہوا۔ پھر برن (بلند شہر) کا اقطاع دار مقرر ہوا۔ قطب الدین نے اپنی ایک لڑکی کو اس کے عقد میں دیا۔ جس کے بعد وہ بدایوں کا اقطاع دار ہوا۔(اس کے بعد سلطان ہند ہوا) (بحوالہ پروفیسر اشیربادی لال سریوستو صدر شعبہ تاریخ سیاسیات آگرہ، کالج آگرہ، کتاب: ہندوستان کے عہد کی ایک ایک جھلک از سید صباح الدین عبد الرحمن، پبلشر: دارالمصنفین اعظم گڑھ، صفحہ 97 تا 98)
نمبر3 1 نشاندہی :صفحہ31، پیراگراف 4، سطر4
غلطی: اُس(قطب الدین ایبک) نے بنگال میں بھی اپنا اقتدا ربحال کرلیا۔
درستگی: یہ جملہ حذف ہونا چاہیے۔ کیونکہ قطب الدین ایبک بنگال پر اپنا اقتدار بحال نہ کرسکا۔ وہاں خلجی خود مختار ہوگئے تھے۔
درستگی کا حوالہ: ایبک کا بنگال پر اختیار نہ تھا ۔ ملاحظہ کریں  (طبقات ناصری از الدین جوزجانی (منہاج سراج الدین)، تلخیص و ترجمہ ممتاز لیاقت، پبلشر:سنگ میل، صفحہ 173)
بنگال پر اقتدار التتمش نے بحال کیا۔(سلاطین دہلی از شیخ محمد رفیق، پبلشر: سٹینڈرڈ بک ہاؤس، صفحہ نمبر99، موضوع: مشکلات)
نمبر4 1 نشاندہی :صفحہ34، پیراگراف 3، سطر1
غلطی: سلطان ناصر الدین محمود سلطان التتمش کا چھوٹا بیٹا تھا جو بنگال کا گورنر مقرر کیا گیا تھا،
 درستگی: سلطان ناصر الدین محمود سلطان التتمش کا چھوٹا بیٹا تھا اور یہ بنگال کا گورنر نہیں رہا۔ بلکہ بنگال کا گورنر سلطان التتمش کا ولی عہد بیٹا شہزادہ ناصر الدین تھا۔ جو عہد التتمش کے آخری برسوں میں وفات پاگیا ۔
درستگی کا حوالہ: سلطان ناصر الدین محمود سلطان التتمش کا چھوٹا بیٹا تھا اور یہ بنگال کا گورنر نہیں رہا۔ بلکہ بنگال کا گورنر سلطان التتمش کا ولی عہد بیٹا شہزادہ ناصر الدین تھا۔ جو عہد التتمش کے آخری برسوں میں وفات پاگیا اور التتمش نے زندگی میں اُس کا مقبرہ بنوایا اور سلطان ناصر الدین محمود کی پیدائش پر اِس کا نام مرحوم شہزادے کی یاد میں ناصر الدین رکھا۔
سلطان ناصر الدین محمود 626ھ (1229ء) کو قصر باغ دہلی میں پیدا ہوا۔سلطان شمس الدین کا بڑا فرزند سلطان ناصر الدین چونکہ کچھ عرصہ پہلےانتقال کرچکا تھا، اس لیے نومولود شہزادے کا نام اور لقب دے دیا گیا۔ کریں  (طبقات ناصری از الدین جوزجانی (منہاج سراج الدین)، تلخیص و ترجمہ ممتاز لیاقت، پبلشر:سنگ میل، صفحہ 188)
لکھنوتی پر قبضہ صفحہ 81: اپنے بڑے بیٹے (محمود) کو سلطان ناصر الدین کا خطاب عطا کرکے لکھنوتی  (بنگال) کی حکومت عنایت کی۔ ناصر الدین محمود بن شمس الدین التمش کی وفات صفحہ 82: اسی سال اس کے بڑے بیٹے، جو کہ لکھنوتی کا صوبہ دار ہوچکا تھا، کی وفات کی خبر ملی۔ (تاریخ مبارک شاہی از یحیی بن سرہندی، مترجم: ڈاکٹرآفتاب اصغر)
نمبر5 1 نشاندہی :صفحہ39، تصویر : سلطان جلال الدین فیروز خلجی
غلطی: یہ تصویر “سلطان جلال الدین اکبر” کی ہے
درستگی: سلطان جلال الدین فیروز خلجی” کی تصویر یہاں پر لگائیں
 درستگی کا حوالہ: یہ تصویر انٹرنیٹ سے لی گئی ہے۔اور آپ خود بھی ایک بار اس کو انٹرنیٹ پر ملاحظہ کرسکتے ہیں۔http://www.apnaorg.com/books/akbar/
فیروز خلجی جب بادشاہ بنا تھا تب اُس کی عمر 70 سال تھی اور وُہ ڈاڑھی بھی رکھتا تھا۔ اس تصویر سے نہ تو 70 سال کی عمر کا اندازہ ہوتا ہے اور نہ ڈاڑھی ملتی ہے۔ مزید جو مونچھیں ہیں وہ سیاہ ہے۔ اُن کی سفیدی ظاہر نہیں۔ مزید میرے ریکارڈ میں دستیاب تصویر بھی ساتھ منسلک ہے۔
نمبر6 1 نشاندہی :صفحہ41، نقشہ: افغان سلطنت
غلطی: صفحہ 39 میں پہلے ہی مصنفین خلجیوں کو ترک کہہ چکے ہیں۔ تو یہاں پر افغان سلطنت لکھنے کے معنی اُن کو پٹھان ظاہر کرنے کے ہیں۔
درستگی کا حوالہ: یہ نقشہ بھی انٹرنیٹ سے لیا گیا ہے۔مگر یا تو خلجیوں کو پٹھان لکھ دیا جائے اور نقشہ کو من و عن رہنے دیا جائے۔ اگر خلجی ترک لکھنے ہیں تو پھر نقشہ میں خلجی سلطنت لکھیے۔
میں اس بات سے آگاہ ہوں کہ خلجیوں کے بارے میں یہ بحث رہتی ہے کہ وُہ ترک ہے یا پٹھان۔ سب اپنی جگہ درست۔ مگر جب مواد لکھا جائے تو اُس میں کانسی ٹینسی(Consistency) بھی رکھی جائے۔
نقشہ میں دیو گڑھ لکھا گیا ہے اور مواد میں دیوگیری۔ یہ بات چھٹی جماعت کے بچہ کو کنفیوژ کریں گی۔ لہذا دونوں کو ایک ہونا چاہیے۔ یا دونوں جوانب دیوگیری لکھے یا دیوگڑھ۔
مزید نقشہ میں حد بندی کا رنگ بھی ٹھیک حدود کے اندر سبز رکھے۔ اوڑیسہ، مدورا خلجی سلطنت میں اگر شامل نہیں تھے تو یہ سبز رنگ سے پاک ہونے چاہیے۔
نمبر7 1 نشاندہی :صفحہ56، پیراگراف 3، موضوع: خاندیش،سطر1
غلطی: یہ ریاست 1601ء میں بابر کے حملہ کے وقت میراں محمد کے قبضے میں چلی گئی۔
درستگی: یہ ریاست 1601ء میں اکبر کے حملہ کے وقت میراں بہادر شاہ کے قبضے سے چلی گئی۔
درستگی کا حوالہ: ظہیر الدین بابر کی وفات 26 دسمبر 1526ء کوہوگئی تھی ، لہذا یہ بابر نہیں ہوسکتا تھا۔ 1601ء میں شہنشاہ جلال الدین اکبر زندہ  تھا۔ اس کی وفات 1605ء میں ہوئی۔مزید خاندیش کی فتح  اور فاروقی خاندان کے عہد اقتدار کا خاتمہ دورِ اکبری میں ہوا ۔ خاندیش کی فتح میں اکبر نے اسیرگڑھ کے قلعہ کو رشوت دے کر فتح کیا تھا۔یہاں پر شہزادہ دانیال کو گورنر تعینات کیا گیا تھا۔ اور میراں بہادر شاہ کو گرفتار کرکےآگرہ بھجوا دیا گیا، جہاں اُس نے 1624ء میں وفات پائی۔ (یہ حوالہ مغلیہ تاریخ کی کسی بھی کتاب سے دیکھا جاسکتا ہے۔)
حوالہ:صفحہ 107، موضوع: اسیر گڑھ مہم،تاریخ پاکستان و ہند عہد مغلیہ از شٰیخ محمد رفیق، پبلشر: سٹینڈرڈ بک سنٹر
نمبر 18 نشاندہی : صفحہ65، پیراگراف 1، سطر1
غلطی: فیروز شاہ تغلق کے دور میں فنِ تعمیر کے لحاظ سے غیاث الدین تغلق کا مقبرہ،
درستگی: سلطان محمد تغلق کے دور میں فن تعمیر کے لحاظ سے غیاث الدین تغلق کا مقبرہ،
یاد رکھیے: غیاث الدین تغلق نےاپنی زندگی میں مقبرہ بنوایا، جس میں وُہ دفن نہ ہوسکا اور یہ مقبرہ شیخ رکن الدین ملتانیؒ کا مزار بن گیا، محمد تغلق نے باپ کا مقبرہ بنوایا اور اپنا مقبرہ  لال گنبدبھی زندگی میں تعمیرکروایا مگر وُہ بھی اپنے تعمیرکردہ مقبرہ میں دفن نہ ہوسکا اور اپنے باپ کے پہلو میں دفن ہوا۔ بعد میں فیروز شاہ تغلق نے یہ مقبرہ ولی اللہ کبیرالدین اولیاء کودےدیا۔
حوالہ: اس (محمد بن تغلق) کی تعمیرات میں غیاث الدین تغلق کا مقبرہ، شہر جہاں پناہ، دہلی کا لال گنبد، دولت آباد کا قلعہ وغیرہ ہیں۔ (بحوالہ پروفیسر ایس کے بنرجی لکھنؤ یونیورسٹی، باب: تعمیرات،  کتاب: ہندوستان کے عہد کی ایک ایک جھلک از سید صباح الدین عبد الرحمن، پبلشر: دارالمصنفین اعظم گڑھ، صفحہ 434)
نمبر9 1 نشاندہی : صفحہ17، پیراگراف 2، سطر4
غلطی: جین مت کے پیروکار ہندوستان کے علاوہ سری لنکا، برما، چین، جاپان اور کوریا میں موجود ہیں
درستگی: جین مت کے پیروکار ہندوستان کے علاوہ مشرقی افریقہ کے ممالک میں موجود ہیں۔ جین مت ہندوستان سے باہر نہیں پھیل سکا۔ ہندوستان سے باہر بدھ مت  کے پیروکارسری لنکا، برما، بھوٹان، چین، جاپان اورکوریا میں  موجود ہیں۔

By فخرنوید

قابلیت: ایم ایس سی ماس کمیونیکیشن بلاگز: پاک گلیکسی اردو بلاگhttp://urdu.pakgalaxy.com ماس کمیونیکیشن انگلش بلاگ http://mass.pakgalaxy.com ای میل:[email protected]

Leave a Reply to Carol Mapua Cancel reply

Your email address will not be published.