بات خط یعنی بیرنگ کی چل نکلی ہے تو اس کو آپ لوگ رقعہ بازی کے ساتھ جوڑنے کی کوشش مت کیجئیے گا کیونکہ میں ابھی تک اتنا بہادر نہیں ہوا کہ اپنے راز عاشقانہ یوں بلاگ سکوں۔

میرا تعلق گوجرانوالہ کی تحصیل نوشہرہ ورکاں کے گاؤں ودہاون سے ہے۔ میں پیدائش سے لے کر آٹھویں جماعت تک وہاں رہائش پذیر رہا اور نوشہرہ ورکاں  کے ایک سکول انگلش ماڈل ہائی سکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی جو آٹھویں تک بلا تعطل جاری رہی ۔

آٹھویں جماعت تک جاتے جاتے ہمیں ایک تو رقعہ بازی کی سمجھ بھی لگ گئی اور کچھ مزاج عاشقانہ کی وجہ سے گلیاں ناپنے کا طریقہ بھی آگیا۔ اور جس گلی سے عموماً گزر ہوتا تھا اس گلی میں نوشہرہ ورکاں کا مرکزی ڈاکخانہ تھا۔

خط بھیجنے کو یہی مرکزی ڈاکخانہ استعمال ہوتا تھا۔ ہر خط پر ڈاک ٹکٹ کا ہونا ضروری ہوتا ہے تب ہی وہ ڈاک متعلقہ پتہ پر ارسال ہوتی تھی۔ چونکہ لڑکپن تھا اور جیب خرچ بھی نہ ہونے کے برابر ہوتا تھا تو میں ڈاک ٹکٹ تو بالکل بھی خریدنے کی ہمت کر سکتا تھا وہ بھی شرارت کے لئے۔  اس مقصد کے لئے بغیر ڈاک ٹکٹ کے خط ارسال کرنا تھا اور ایسا خط جو بغیر ڈاک ٹکٹ کے بھیجا جاتا تھا اس کو وصول کرنے والے کو اس کی ڈاک ٹکٹ کا خرچہ دینا پڑ جاتا تھا جو کہ مجھے اچھا طریقہ ملا تھا  دوسرا جس کی غلطی سزا بھی اسے ہی ملے۔

 

خط کا لفافہ

سکول میں پڑھائی کے دوران چند دوست بھی تھے ان میں سے ایک دوست کا نام جمشید تھا جس کے والد کی دکان کڑیال کلاں کو جانے والی  ویگنوں کے اڈے کے ساتھ ہی آرائیں بیج سٹور کے نام سے دکان تھی۔

ہم دونوں ہم جماعت تھے۔ ایک دن ہمارا امتحان تھا اور جمشید نے  دوران امتحان مجھ سے کوئی چیز پوچھی جو میں نے بتانے سے انکار کر دیا۔ اس نے جواباً مجھے دھمکی دے ڈالی۔ اور چھٹی کے بعد مارڈھاڑ ہو گئی۔ لیکن اگلے دن جب امتحانی پرچہ پاس فیل ہونے کے بعد واپس ملا تو اس کا چہرہ اور سرخ تھا جبکہ میں پاس ہو چکا تھا۔ میں اس کی حرکات و سکنات پر نظر رکھے ہوئے تھا۔ اس نے اپنا امتحانی پرچہ جماعت میں ہی پھینکا اور چھٹی کے بعد میری تاک میں پھر تھا غصہ نکالنے کو اور میں جماعت سے اس لئے باہر نہیں نکل رہا تھا کہ پہلے اپنی پارٹی مضبوط ہو لے لیکن اج اپنی پارٹی کی پوزیشن کمزور ہی تھی اسی دوران جماعت میں پھینکے ہوئے اس کے امتحانی پرچے پر نظر پڑ گئی جس کو بدلے کے طور پر استعمال کرنے کا سوچا کہ آج اس نے کچھ کہا تو اس کے ابے کو شکایت لگاوں گا اور پرچہ بھی دکھا دوں گا۔

جب سکول سے باہر نکلا تو وہ منتظر تھا لیکن ہماری لڑائی بس دیکھ لوں گا ۔۔۔ تیری ایسی کی تیسی اور گالم گلوچ پر ہی ختم ہو گئی لیکن میں نے بھی بدلہ لینے کا سوچ لیا تھا کہ آج اس کے ابا جان کو امتحانی پرچہ دکھا کر اس کی گھر سے ٹھکوائی کرواوں گا۔

گلیاں گزر رہا تھا جونہی ڈاکخانہ والی گلی میں داخل ہوا تو نئی ترکیب زہن میں آگئی کہ خود سامنے آنے کی کیا ضرورت ہے اس کے ابے کو بیرنگ ہی بھیج دیتا ہوں۔ میں نے اس کے امتحانی پرچے کو اس طرح تہہ لگائی کے خالی جگہ والا حصہ باہر آگیا اور اس پر اپنے قلم کی مدد سے اس کے ابا کی دکان کا ایڈریس لکھا اور لال سے لیٹر باکس میں ڈال کر عجیب سے سکون و مسرت کے ساتھ چل پڑا جیسے سومنات کا مندر فتح کر لیا ہو۔ چونکہ بیرنگ کو اسی شہر میں رہنا تھا لہذا اگلے دن ہی اس کے ابا کو مل گیا اور اسے سے اگلے دن محترم جمشید  کی زبانی اور روندی شکل سے اس کی وصولی کی تصدیق بھی ہوگئی

 

By فخرنوید

قابلیت: ایم ایس سی ماس کمیونیکیشن بلاگز: پاک گلیکسی اردو بلاگhttp://urdu.pakgalaxy.com ماس کمیونیکیشن انگلش بلاگ http://mass.pakgalaxy.com ای میل:[email protected]

Leave a Reply to Anonymous Cancel reply

Your email address will not be published.