کائنات کی تخلیق میں بہت سے اسرار و رموز ایسے ہیں جن تک انسانی سوچ ابھی تک پہنچ نہیں سکی اور سمجھ نہیں سکی۔ یہ پر اسراریت ہی انسانی تخیل کو  بڑھوتری دیتا ہے اور انسان کے تخیل کی پرواز کو بلندی بخشتا ہے۔ اگر ہم اس کائنات میں موجود کسی بھی چیز کا بڑی باریک بینی سے جائزہ لیں تو بندہ سوچتا ہی رہ  جاتا ہے۔ اور قدرت کے کرشمے کی تعریف اور اس کے تخلیق کار کی حمد بیان کئے بنا رہ نہیں پاتا۔

تخیل کی پرواز کیسے شروع ہوتی ہے؟ یہ بھی ایک ایسا ہی اسرار و رموز ہے جس کی اب تک کھوج جاری ہے۔ کہ نوزائیدہ کیا سوچتا ہے؟ کیا اس کی سوچ پیدا ہوتی ہے؟ اگر سوچ پیدا ہوتی ہے۔ تو کیا وہ اس سوچ کے نتائج اخذ کر پاتا ہے؟ بہت سے ایسے سوالات جنم لیتے ہیں جن کے جوابات ابھی تک معلوم نہیں ہو سکے ہیں۔

جوں جوں بچہ نوزائیدگی سے نکل کر3 ماہ کے عرصہ تک پہنچتا ہے تو بچے کی سوچ اور تخیل کے اثرات بھی نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ لیکن اس وقت اس کے تخیلات اور سوچ کی ہمراہی اس کا باپ یا ماں ہوتی ہے۔ سائیکالوجی پروفیسر پال سی کوئن ، پی ایچ ڈی ، ڈیلا ویر یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق 3 ماہ کا بچہ جنسی طور پر اپنے ساتھ زیادہ خیال رکھنے والے کو پہچاننے کی صلاحیت حاصل کر  لیتا ہے۔ اس کی یہ صلاحیت قدرتی طور پر کسی ایک جنس یعنی مرد یا عورت کی طرف نہیں ہوتی ہے۔ بلکہ اس کی سوچ کے تحت ہوتی ہے کہ کون اس کا زیادہ خیال رکھتا ہے بچے کی انسیت اور توجہ بھی اس کی طرف  زیادہ بڑھتی ہے۔ خواہ وہ ماں ہو یا باپ۔

ہمارے مشرقی معاشرے میں چونکہ بچوں کی پرورش ماں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اور وہی  بچے کی حرکات و سکنات سے یہ سمجھ لیتی ہے۔ کہ بچہ کیا چاہتا ہے؟ یا بچہ کیا سوچ رہا ہے؟

بچے کے تخیل کی پرواز کا پہلا ہمسفر ماں کا احساس مامتا ہوتا ہے۔ جو اس کی سوچ کو اچھے یا برے کی تمیزسکھاتا ہے۔ ماں کی محبت اپنے بچوں سے بڑھ کر کسی سے نہیں ہوتی ہے۔

اسی بنا پر بچے کے تخیل کو مثبت سمت دینے کے لئے ماں کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے۔ اگر ماں اسے ایسا ماحول فراہم کرتی ہے۔ جس سے بچے میں مثبت رجحان بڑھے ۔ اگر ماحول میں منفی رویے اور سوچ بچے کو ملے گی تو اس کی سوچ بھی اسی میں ڈھل جائے گی۔ ماحول میں غیر مساوات اور نا انصافی ہو گی تو اس بچے کا دوسرے بچوں کے بارے خیالات منفی ہوتے جائیں گے اور ان کی طرف وہ حسد و رقابت کی نظر سے دیکھے گا۔

ماں کو  اللہ تعالیٰ نے نفسیاتی علم قدرتی طور پر فراہم کیا ہوا ہے۔ جس کے تحت ماں بچے کی ہر حرکت سے اس کو پہچان لیتی ہے کہ بچہ اس وقت کس صورت حال سے گزر رہا ہے۔ اسے اندازہ ہو جاتا ہے کہ بچے کی باڈی لینگوئج اور عمل میں تضاد ہے تو بچہ کسی منفی سرگرمی مین ملوث ہے یا کسی پریشانی کا شکار ہے۔ اور اس وقت ماں کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ بچے کو دوستانہ رویہ سے اپنے قریب کرے تاکہ بچہ اگر پریشان ہے تو اپنی پریشانی بیان کرے اگر وہ غلطی کر چکا ہے تو سزا کے خوف سے چپ نہ رہے بلکہ اپنی ماں کو اپنی غلطی بیان کر دے اور اسے مستقل مزاجی نہ بنا لے جس سے وہ منفی سوچ کا حامل ہو جائے۔

بچوں کی بچپن کی تربیت ان کی باقی ماندہ زندگی یا یوں کہہ لیجئے بڑھاپے تک وہ تربیت اثرانداز رہتی ہے۔ جو چیزیں آپ بچے کو بچپن میں سکھاتے ہیں سمجھاتے ہیں وہ اس کے ساتھ ساتھ پروان چڑھتی ہیں۔

 

By فخرنوید

قابلیت: ایم ایس سی ماس کمیونیکیشن بلاگز: پاک گلیکسی اردو بلاگhttp://urdu.pakgalaxy.com ماس کمیونیکیشن انگلش بلاگ http://mass.pakgalaxy.com ای میل:[email protected]

Leave a Reply

Your email address will not be published.